کم عمری میں بیاہی جانے والی لڑکیاں اکثر اوقات ذہنی مریض بن جاتی ہیں
خالدہ نیاز
”میرا دنیا سے دل اچاٹ ہوگیا تھا، کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا دل کرتا تھا کہ بس یہ زندگی ختم ہوجائے لیکن پھر خیال آتا کہ اگر میں مرگئی تو میری ان دو بیٹیوں کا کیا ہوگا، انکو کون سنبھالے گا”
پشاور سے تعلق رکھنے والی 20 سالہ سفینہ کی شادی 6 سال قبل ہوئی تھی اور اب اس کی دو بیٹیاں بھی ہیں۔ سفینہ کا کہنا ہے کہ 14 سال کی تھی جب وہ اپنے ماموں زاد کی دلہن بن گئی اس وقت اس وہ بہت چھوٹی تھی اور اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔
سفینہ کا کہنا ہے کہ شادی کے کچھ عرصہ بعد اس کے شوہر نے اس پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیا کیونکہ وہ نشے کا عادی تھا، ‘وہ گھر بھی نہیں آتا تھا اور اگر آتا بھی تو سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا بلکہ بہت مارتا تھا مجھے’
سفینہ نے کہا کہ اس کے بعد وہ میکے جاکے بیٹھ گئی کیونکہ شوہر کے گھر میں اس کا جینا دو بھر ہوگیا تھا لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد سسرال والے اس مناکے لے گئے، کچھ عرصہ تک اس کا شوہر ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد وہی لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے اور وہ بہت تناؤ کا شکار ہوگئی پھر اس نے نیند کی گولیوں کا استعمال بھی شروع کردیا جس سے اسکی حالت خراب ہونے لگی اور اب وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ میکے آکے بیٹھ گئی ہے کیونکہ اس کے شوہر نے اس کو طلاق دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ مینٹل ہیلتھ سسٹم ان پاکستان کے مطابق صوبے کی17 ملین آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق خیبرپختونخوا میں 46 فیصد خواتین مختلف قسم کے مسائل کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا ہے۔ ذہنی امراض کے ماہرین کے مطابق اس طرح کی خواتین کا وقت پر علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔
کلنیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹرعرشی ارباب جو پچھلے گیارہ سال سے اس شعبے سے وابستہ ہے کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کروادی جاتی ہے جس کا انکی جسمانی اور ذہنی صحت پر برا اثر پڑتا ہے کیونکہ جب ایک لڑکی کی کم عمر میں شادی کروادی جاتی ہے تو پھر اس کو گھر سنبھالنا ہوتا ہے، ساس، شوہر اور باقی گھر والوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اس کا بچپن اس کے چھین لیا جاتا ہے اور اس پر ضرورت سے زیادہ ذمہ داریاں ڈال جاتی ہے۔
عرشی ارباب نے بتایا کہ انکے پاس اکثر ایسی لڑکیاں آتی ہیں جو انزائٹی، ڈٌپریشن، خوف اور باقی ذہنی امراض میں مبتلا ہوتی ہیں اور زیادہ تر ان میں ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جنکی شادی کم عمرمیں ہوجاتی ہیں۔ عرشی ارباب نے بتایا کہ ذہنی امراض کا عموما لوگ علاج بھی نہیں کرواتے جس سے مرض بگڑ جاتا ہے اور اکثر لڑکیاں یا تو خودکشی کرلیتی ہیں یا پھر وہ گھر سے بھاگ جاتی ہے لیکن بھاگ کربھی جب وہ پکڑی جاتی ہے تو پھر انکو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں ابھی تک برطانوی راج کی طرف سے 1929میں نافذ کردہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ لا نافذ ہے جس میں 18 سال سے کم عمر لڑکوں اور 16 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی سہولت کاری پر ایک ہزار روپے جرمانہ یا ایک ماہ قید کی انتہائی معمولی سزا مقرر کی گئی ہے۔صوبے میں بچوں سے شادی کے قانون میں بہتری لانے کے لئے بہت سی کوششیں کی گئیں ہیں لیکن انہیں حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر مذہبی قدامت پسندوں کی طرف سے ہمیشہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک اس میں ترمیم نہ ہوسکی، بنیادی اعتراض لڑکیوں کی شادی بیا ہ کی عمر 16 سے بڑھا کر 18 سال کرنا ہے۔
کلینکل سائیکالوجسٹ کہتی ہیں کہ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی کے مختلف وجوہات ہیں جن میں غربت، معاشی مسائل، جنسی زیادتی کے واقعات، بچپن کے رشتے اور وٹہ سٹہ شامل ہیں اور کچھ علاقوں میں تو لوگ بیٹی کے عوض پیسے بھی لیتے ہیں جس سے انکو مالی فائدہ بھی مل جاتا ہے۔
ان کے مطابق کم عمر میں جب کسی بچی کی شادی کردی جاتی ہے تو انکو معاشی اور سماجی مسائل بھی ہوتے ہیں کیونکہ انکو نہ تو شوہر پیسے دیتا ہے اور نہ ہی باقی گھر والے جبکہ انکو کہیں آنے جانے بھی نہیں دیا جاتا اور بس انکو کام پہ لگادیا جاتا ہے جس سے وہ ڈپریشن میں چلی جاتی ہے جب کہ حمل میں بھی انکو زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ انکی عمر کم ہوتی ہے اور پیدائش کے دوران اموات میں اضافے کی ایک وجہ کم عمری کی شادی بھی ہے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں % 12 فیصد لڑکیوں کی شادی 21 سال سے کم عمر جبکہ تین فیصد لڑکیوں کی شادی 21 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے، اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان دنیا میں چھٹا بڑا ملک ہے جہاں بچیوں کی سب سے زیادہ شادیاں کی جاتی ہیں اور تقریبا 1.2 ملین لڑکیاں بچپن کی شادی کا شکار ہو چکی ہیں, دستیاب اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 11 فیصد شادیاں بچپن میں ہی کر دی جاتی ہیں۔
پروجیکٹ کوآرڈینیٹربلیو وینز قمرنسیم کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی صحت کے مسائل بہت زیادہ ہے اور چائلڈ میرج کی صورت میں یہ مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں کیونکہ پھر بچیوں پرذمہ داریاں بڑھ جاتی ہے اور انکی عمر ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اس کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں ایسے میں وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہے اور بدقسمتی سے یہاں ذہنی امراض کا علاج بھی نہیں کیا جاتا، لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے مریض دن بدن بدتر ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکے ادارے نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ ذہنی امراض کے حوالے سے لوگوں میں شعور اجاگر کریں اور مختلف سیمینارز میں انہوں نے اس حوالے سے تربیت بھی دی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کرایک ہیلپ لائن بھی متعارف کروایا ہے جس پر لوگوں کو رہنمائی ملتی ہے چاہے وہ ذہنی امراض کے حوالے سے ہو، گھریلو تشدد ہو یا کسی اور حوالے سے۔
سفینہ آجکل اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ میکے میں ہے اوراب شاید اس کو یہی رہنا ہے ساری عمر، سفینہ آجکل ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہی ہے اور دسویں جماعت کی طالبہ ہے کیونکہ اب اس کو اپنی دو بیٹیوں کو بھی پالنا ہے، سفینہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کم عمری کی شادی کے حوالے سے ایک مؤثر قانون لایا جائے کیونکہ اس کی طرح باقی لڑکیوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔