سیاست

"باہر ممالک میں ہوں تو سونے کے انڈے دینے والی، واپس آجائیں تو مردہ مرغیاں بن جاتے ہیں”

افتخار خان

چالیس سالہ قبائلی خاتون رحمینہ بی بی کی زندگی کچھ عرصہ پہلے خوش و خرم گزر رہی تھی، ان کا بڑا بیٹا 22 سالہ اکرم سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا تھا اور یہاں اپنے 11 افراد پر مشتمل کنبے کا واحد لیکن ذمہ دار کفیل تھا۔ اکرم نومبر 2020 میں 4 مہینوں کی چھٹیوں پر گھر آیا تو ان کے جانے سے پہلے سعودی عرب حکومت نے کورونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر پاکستان سمیت بیس ممالک پر سفری پابندیاں عائد کردی۔ مارچ تک جمع پونجی ختم ہوگئی تو گھرانے کو مشکل حالات نے آگھیرا اور فاقوں تک نوبت آن پہنچی۔ اسی دوران اکرم کے والد کورونا کا شکار ہوگئے تو سرکاری ہسپتالوں میں آفاقہ نہ ہونے پر مجبورا انہیں نجی ہسپتال میں داخل کروانا پڑا۔

علاج معالجے کے لئے رحمینہ بی بی نے اپنی تین بیٹیوں کے لئے رکھا گیا زیور بھیج دیا اور اکرم نے جان پہچان والوں سے قرضے لے لئے لیکن گھر کے سربراہ کی جان پھر بھی نہ بچ سکی۔

"بیٹا پرائے ملک میں تھا لیکن پھر بھی دل کو سکون تھا، جب تک وہ برسرروزگار تھا تو سب کچھ ٹھیک تھا، اب بیٹا بھی گھر پر بے روزگار ہے، زیور سمیت سب جمع پونجی بھی ختم ہوگئی اور سب سے بڑا غم یہ کہ ہمارے سر کا سایہ ختم ہوگیا” رحمینہ نے آنسو پونچتے ہوئے کہا۔

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیوں کا آٹھ مہینوں سے زیادہ ہوگئے ہیں جس کا سیدھا اثر اکرم اور رحمینہ جیسے لاکھوں گھرانوں پر پڑ رہا ہے۔

مختلف ائیرلائنز کے ڈیٹا کے مطابق موجودہ وقت میں سعودی عرب سے آئے 6 لاکھ تک پاکستانی یہاں پھنسے ہوئے ہیں اور روزانہ اسی خبر کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب سفری پابندیاں ختم ہوں اور وہ لوگ دوبارہ محنت مزدوری کرنے چلے جائیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والا ولی رحمان بھی انہیں میں سے ایک ہے ولی رحمان تقریبا بیس سال تک سعودی عرب میں مختلف نجی کمپنیوں کے ساتھ ڈرائیور کے طور پر کام کرتے رہیں لیکن کورونا وبا کے دوران موجودہ کمپنی کے خسارے میں جانے پر انہیں نہ صرف نوکری سے نکال دیا گیا بلکہ ان کی چار مہینوں کی تنخواہ بھی ہڑپ کر لی گئی۔ ولی رحمان اب 50 سال کی عمر میں یہاں کسی اور کی گاڑی پر ٹیکسی کرتے ہیں اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ٹاپ ممالک میں ہوتا ہے جن کی ایک بڑی آبادی باہر ممالک میں محنت مزدوری کرتی ہے اور ترسیلات زر اپنے ملک بھیجتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ڈیٹا کے مطابق موجودہ وقت میں ایک کروڑ دس لاکھ تک پاکستانی باہر ممالک میں مقیم ہیں جن میں 96 فیصد خلیجی ممالک میں ہیں۔ خلیج ممالک میں سب سے زیادہ سمندر پار پاکستانی سعودی عرب میں ہیں جن کی تعداد 27 لاکھ تک ہے جبکہ پندرہ لاکھ تک پاکستانیوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات دوسرے نمبر پر ہے۔ سٹیٹ بینک کے ڈیٹا کے مطابق باہر ممالک میں کام کاج کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد 90 لاکھ تک ہے جن میں تقریبا 20 لاکھ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں۔

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے ڈیٹا کے مطابق خیبرپختونخوا کے سمندر پار پاکستانیوں میں اس وقت مردان، سوات اور دیر کے دونوں اضلاع سرفہرست ہیں۔

کورونا وبا کی وجہ سے جہاں ایک طرف ان مسافروں پر مشکلات آن پڑی، وہ میزبان ممالک میں بے روزگار ہوگئے، کوئی چھٹی پر آیا اپنے ملک میں پھنس گیا، کسی کے ویزے اور ورک پرمٹس ایکسپائر ہوگئے لیکن دوسری جانب اس وبا کے دوران حیران کن طور پر ملک کو باہر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ زرمبادلہ بھیجا گیا۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 2020-21 کے مالی سال میں سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے ترسیلات زر 29.4 بلین ڈالر رہیں جو کہ پاکستانی کرنسی میں پانچ سو ارب روپے سے زیادہ ہے اور پاکستان کی تاریخ میں اب تک ایک سال میں بھیجی گئی یہ سب سے زیادہ ترسیلات زر ہے۔ پچھلے مالی سال ترسیلات زر کا حجم 23 بلین ڈالر تک رہا تھا۔

حکومت پاکستان نے رواں مالی سال سمندر پار پاکستانیوں سے اس سے بھی زیادہ ترسیلات زر بھیجنے کی امید لگائی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے کوارٹر میں اب تک سمندرپار پاکستانیوں کا اپنے ملک بھیجا گیا زرمبادلہ اٹھ بلین ڈالر سے بڑھ گیا ہے جس سے سال بھر میں ترسیلات زر 32 بلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

ستمبر 2021 میں 2.7 بلین ڈالر کے ساتھ سمندر پار پاکستانیوں نے مسلسل سولویں مہینے دو ارب ڈالر سے زیادہ زرمبادلہ بھیجنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ریکارڈ زرمبادلہ بھیجنے پر وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹویٹر اوورسیز پاکستانیوں کو مبارکباد دی ہے اور شکریہ ادا کیا ہے کہ ان کی بدولت ملکی معیشت کو استحکام مل رہا ہے۔

وزیراعظم اور دوسری حکومتی مشینری ان اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ملک کو پیسے بھیجنے پر تو پھولے نہیں سما رہے لیکن کیا حکومت نے مشکل میں پھنسے ان مسافر بھائیوں کی فلاح کے لئے بھی کچھ کیا ہے۔ اس ضمن میں زیادہ تر مسافر اور خاص کر خلیج ممالک میں مقیم یا اکرم اور ولی رحمان کی طرح واپس آئے مسافر وزیراعظم عمران خان سے ناراض نظر آتے ہیں۔

رحمان ولی کا کہنا ہے کہ انہوں نے گھر پیسے بھیجنے کے لئے کبھی بھی ہنڈی، حوالہ یا دیگر غیرقانونی طریقوں کا استعمال نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہمیشہ قانونی طریقے سے ہی پیسے بھیجے۔

"میں چاہتا تھا کہ میری کمائی سے تھوڑی ہی سہی لیکن ملک کی بھلائی تو ہو۔ میرے دیگر ساتھی حوالہ کے زریعے پیسے بھیجا کرتے تھے جو کہ انہیں اوپن مارکیٹ کا ریٹ دیتے تھے۔ میں بینک کے زریعے اپنی کمائی بھیجتا تھا اور جس کا ایک مخصوص حصہ حکومت پاکستان کے پاس جاتا تھا”

انہوں نے شکوہ کیا کہ اب جب ان پر سخت وقت آیا ہے تو چاہئے تھا کہ حکومت پاکستان ان کا احوال پوچھتی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ان کا کسی نے نہیں پوچھا۔ "کورونا وبا کے دوران حکومت نے غریب اور بے آسرا خاندانوں کے لئے احساس پروگرام شروع کیا ہے لیکن اس میں بھی ہم جیسے لوگ شامل نہیں تھے کیونکہ حکومت کی نظر میں ہم پہلے کی طرح درمیانے درجے کے لوگ تھے، حقیقت یہ ہے کہ جب ہم باہر ہوں تو نہ صرف ہمارے گھرانے کے لئے بلکہ حکومت کی نظر میں بھی سونے کے انڈے دینی والی مرغیاں ہوتی ہیں لیکن جب واپس آجائیں تو ہماری مثال مردہ مرغیوں کی سی ہوجاتی ہے جن کو ہر ایک پھینکا چاہتا ہے”

امید کی کرن:

 سعودی عرب نے کورونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر 2 فروری 2021 کو پاکستان سمیت بیس ممالک پر سفری پابندیاں لگائی تھی جس کے ساتھ یہاں چھٹیوں پر آئے ہزاروں مسافر یہاں پھنس گئے تھے۔

جون میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کے دورہ پاکستان کے موقع پر وزیراعظم عمران خان اور ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی نے دوسری علاقائی مسائل پر گفتگو کے علاوہ اس نکتے پر زور دیا تھا اور ان کو اپیل کی تھی کہ سعودی عرب میں پاکستانی مسافروں کی واپسی کے لئے اقدامات اٹھا لیں۔ اس ملاقات اور پاکستانی وزیراعظم کے درخواست کے فی الفور تو کوئی نتائج سامنے نہ آسکے لیکن اگست 24 کو سعودی حکومت نے اپنی سفری پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا۔

نرمی کے مطابق پاکستان سمیت کئی دوسرے ممالک کے ان مسافروں کو سعودی عرب میں داخل کی اجازت مل گئی جنہوں نے جاتے وقت سعودی عرب میں کورونا ویکسین کا کورس مکمل کر لیا تھا۔ اس نرمی کی وجہ سے ہزاروں پاکستانی مسافروں کو واپس سعودی عرب جانے کا موقع مل گیا لیکن رحمان ولی اور اکرم جیسے لوگ پھر بھی پھنسے ہی رہ گئے اور ابھی تک سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے گرین سگنل کے منتظر ہیں۔

متحدہ عرب امارات کے مسافروں کی مشکلات:

سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات کے ممالک کی جانب سے بھی پابندیوں اور وقت در وقت بدلتے فیصلوں کی وجہ سے لاکھوں مسافر پاکستانی مسافر متاثر ہوئیں بلکہ اب بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

کورونا وبا کے پھیلنے پر متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان سمیت کئی ممالک کے لئے سفری شرائط کافی سخت کردی تھی۔ وہاں پہلے پاکستان میں استمال ہونے والی چائنہ کی تیار کردہ ویکسین کو ماننے سے انکار کیا جاتا رہا تو اب مسافروں کو جانے سے پہلے یو اے ای حکومت کی اجازت نامہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان مسافروں کو یہاں اپنے ملک میں بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

بندش کے باوجود سعودی عرب جانے کا جوا:

سعودی عرب کی جانب سے سفری پابندیاں چونکہ مخصوص ممالک پر لگائی گئی تھی تو اس دوران بعض مسافروں نے واپس جانے کے بھی حل ڈھونڈ لیا جو کہ پہلے پہل مہنگا تھا لیکن کامیابی سو فیصد تھی۔ اس ضمن میں مسافر پاکستان سے پہلے کابل یا کرغیزستان جاتے تھے اور وہاں 14 دن قرنطینہ میں گزارنے اور پی سی آر ٹیسٹ کے بعد سعودی عرب پہنچ جاتے تھے۔ بعد میں جب کابل اور کرغیزستان پابندیوں کی ضد میں آگئے تو نہ صرف مزید مسافروں کا یہ رستہ بھی بند ہوگیا بلکہ پہلے سے وہاں قرنطینہ میں موجود پاکستانی بھی واپس آنے پر نہ صرف مجبور ہوگئے بلکہ ان کے لاکھوں روپوں کے ٹکٹس بھی ضائع ہوگئے۔

ٹریول ایجنٹ عابد بتاتے ہیں کہ کرغیزستان اور کابل کے بعد پاکستانیوں کو کینیا کا رستہ مل گیا لیکن وہاں بھی تقریبا 600 مسافروں کے لاکھوں روپے ڈوب گئے۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ چھ سو مسافروں نے نے سعودی عرب براستہ نیروبی تین اور ساڑھے تین لاکھ روپے کے ٹکٹس لئے لیکن کینیا پہنچنے پر وہاں کی حکومت نے ان مسافروں کو آمد کی اجازت ہی نہیں دی اور واپس اپنے ملک بھیج دیا۔ سعودی عرب جانے کے خواہش مند پاکستانی آج کل متحدہ عرب امارات کا راستہ استعمال کر رہے ہیں۔

متعدد پی سی آر ٹیسٹس:

مردان سے تعلق رکھنے والا خالد خان پاکستان میں آٹھ ماہ گزارنے کے بعد ایک مہینے پہلے دوبئی واپس چلا گیا ہے۔ ٹیلیفون پر ٹی این این سے بات کرتے ہوئے خالد نے بتایا کہ یو اے ای کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے چونکہ ان کا ویزہ ختم ہوگیا تھا تو وہ اس حوالے سے کافی پریشان تھے لیکن انہیں اس ضمن میں متحدہ عرب امارات حکومت کی جانب سے ویزہ رینیول میں کوئی دقت پیش نہیں آئی لیکن پاکستان میں پیش آئے مشکلات نے انہیں کافی مایوس کیا ہے۔ خالد کو سب سے بڑا شکوہ متعدد پی سی آر ٹیسٹس سے تھا۔ انہوں نے کہا ٹکٹ خریدنے پر ٹور اپریٹر نے ان سے پانچ ہزار روپے پی سی آر ٹیسٹ کے لئے اضافی لئے اور انہیں ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے لئے بھیج دیا۔ خالد کو بعد میں معلوم ہوا کہ کہ اس پی سی آر ٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ائیرپورٹ میں انہیں ائیرلائن کی جانب سے دوبارہ اسی ٹیسٹ سے گزرنا پڑا جس کے لئے ان سے مزید ۵ ہزار روپے لئے گئے۔ دوبئی پہنچنے پر ان کا ایک بار پھر ریپڈ ٹیسٹ کیا گیا اور اس کے بعد ہی انہیں داخلے کی اجازت مل گئی۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے ٹریول ایجٹس ایسوسی ایشن کے صدر عابد خان کہتے ہیں کہ بعض ایجنٹ اس طرح دھوکہ دہی کرتے ہیں لیکن تمام ایسے نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں پی سی آر کے بعد وہاں ائیرپورٹ پر بھی ریپڈ ٹیسٹ کا نظام اس لئے لگایا کہ یہاں سے جانے والے متعدد ایسے مسافر پکڑے گئے تھے جنہوں نے پی سی آر کا جعلی سرٹیفیکیٹ بنوایا تھا۔

درکار ویکسین کی عدم فراہمی:

متحدہ عرب امارات سمیت مختلف ممالک میں اب بھی پاکستان میں لگنے والی چائنہ کی تیار کردہ ویکسین کو قبول نہیں کیا جا رہا۔ اس ضمن میں پاکستان سے جانے والے ان مسافروں کو مسائل درپیش ہیں جن کے علاقوں میں فائزر، موڈرنا، ایسٹرازینیکا یا دیگر قابل قبول ویکسین نہیں مل رہی۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں مظاہرے بھی رپورٹ ہو رہے ہیں اور باہر جانے کے خواہشمند افراد حکومت سے ان علاقوں میں ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کے مطالبے کرتے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی کے پانچ جولائی کے اجلاس میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا جس میں این سی او سی پر کافی تنقید کی گئی تھی کہ باہر جانے کے خواہش مند پاکستانیوں کے لئے درکار ویکسین کی کمی کیوں سامنے آ رہی ہے۔

ٹکٹ میں ہوشربا اضافہ:

خالد خان نے دوبئی سے پاکستان آتے وقت ٹکٹ 30 ہزار روپے کا لیا تھا لیکن واپس جانے پر انہوں نے وہی ٹکٹ 95 ہزار روپے کا لیا۔ خالد خان شکوہ کرتے ہیں کہ حکومت پاکستان مسافروں کے اپنے ملک پیسے بھیجنے پر پھولے تو نہیں سماتی لیکن ان کے مشکلات کا انہیں کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹکٹ میں 150 او200 فیصد اضافہ ظلم کی انتہا ہے لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں نہ تو ٹور اپریٹر کو قابو میں لانے کی کوئی اقدام نظر آ رہا ہے اور نہ ہی ائیرلائنز سے بات چیت کی جا رہی ہے  بلکہ ائیرلائنز الٹا حکومت پاکستان کی جانب سے نت نئے ٹیکسز کو اس اضافے کی زمہ دار ٹہرا رہی ہے۔

خالد سمجھتے ہیں کہ ائیرلائنز کی جانب سے ٹکٹس میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن ان سے زیادہ منافع ٹور اپریٹرز کماتے ہیں۔ پشاور میں ایک ٹور اپریٹر ایجنٹ کے ساتھ کام کرنے والے ساجد (فرضی نام) نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ سفری پابندیوں کی وجہ سے چونکہ یہ شعبہ بھی متاثر ہوا تھا اس لئے اب ان لوگوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ کمائی کریں۔ انہوں نے اس ضمن میں مسافروں کو بھی قصوروار قرار دیا اور کہا کہ آج کل تمام ٹکٹس کے قیمتیں آنلائن دیکھی جاسکتی ہے لیکن ہمارے زیادہ تر مسافر یہ زحمت نہیں کرتے۔ ٹور اپریٹرز بھی صرف ان مسافروں کو لوٹتی ہے جو قیمتوں سے لاعلم ہو۔

 پی آئی اے کا ظلم:

پاکستانی ائیرپورٹس پر پی سی آر ٹیسٹ میں اگر کسی مسافر میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوجائے تو پاکستان کے سرکاری ائیرلائن پی آئی اے کے علاوہ دیگر تمام ائیرلائنز اس مسافر کو ٹکٹ کے تمام پیسے واپس کردیتے ہیں۔

ٹریول ایجنٹس کے صدر عابد خان کہتے ہیں کہ صرف پی آئی اے ایسے مسافر سے ٹکٹ میں 8 سے 12 ہزار تک روپے کاٹتا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں پی آئی اے انتظامیہ اور حکومت پاکستان پر سخت تنقید کی کہ اس مشکل حالات میں مسافروں کو سہولیات دینے کی بجائے انہیں مزید اذیت سے دوچار کیا جا رہا ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانی:

سمندرپار پاکستانیوں کے لئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں وقت بہ وقت ان کے مسائل زیربحث آتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی جانب سے بھی ان مسائل کے حل کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی نظر نہیں آئی۔

اگست میں کمیٹی کے ایک اجلاس میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے مسافروں سے زیادہ کرائے لینے پر پی آئی اے پر خوب تنقید کی  اور کہا کہ کورونا کے مشکل حالات میں بھی سمندر پار بھائیوں نے ریکارڈ زرمبادلہ ملک بھیجا لیکن جب وہ لوگ مشکل میں پھنس گئے تو پی آئی اے نے کرایہ بڑھا دیا۔ انہوں نے اوورسیز پاکستانی کمیشن پر بھی خوب تنقید کی کہ سمندر پار پاکستانیوں کی فلاح کے لئے کوئی کام نہیں کر رہا۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ممبر اور پی ٹی آئی کے سینیٹر ذیشان خانزادہ اس حوالے ٹی این این کو بتایا کہ اوورسیز کمیشن کے سمندرپار پاکستانیوں کے لئے خدمات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے، باہر ممالک میں جب بھی پاکستانی کسی وجہ سے پھنستا ہے تو یہ کمیشن ان کی مدد کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔

کورونا وبا کے دوران مشکلات سے دوچار مسافروں سے حکومت کا منہ موڑنے کے سوال پر ذیشان خانزادہ نے بتایا کہ حکومت نے ہر فورم پر ان کی مدد کی، سعودی، یو اے ای سمیت ان تمام ممالک سے وزارتوں کے سطح پر بات چیت کی گئی جہاں ضرورت پڑی۔ "سفری پابندیاں اور بعض دیگر ایسے مسائل ہوتے ہیں جن کا حل حکومت پاکستان کے پاس بھی نہیں ہوتا جس کے لئے ہمیں مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا”۔ انہوں نے بتایا۔

انہوں نے اس ضمن میں مسافروں کو بھی مورد الزام ٹہرایا کہ وہ لوگ مشکلات کی صورت میں متعلقہ اداروں کے پاس نہیں جاتے۔ یہاں پر پھنسے مسافروں کو چاہئے کہ اپنے مسائل بیورو آف امیگریشن کے پاس لے جائیں یا سینیٹ کی اس قائمہ کمیٹی کو اگاہ کریں۔

سینیٹر نے بتایا کہ قائمہ کمیٹی میں اب اس بیورو آف امیگریشن کے صوبوں میں موجود نو ریجنل دفاتر کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے ان مسافروں کی مشکلات میں کچھ حد تک کمی ضرور ہوگی۔

سینیٹر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پچھلے مہینے آئی ایم ایف کے ایک میٹنگ میں وہ شریک تھے جس میں غریب ممالک کے مسائل کے حوالے سے بحث ہو رہا تھا۔ "اس موقع پر میں نے پاکستان نے ان اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی اور میزبان ممالک پر زور دیا کہ وہاں پر کام کاج کرنے والے اوورسیز کے لئے پابندیوں میں نرمیاں پیدا کرے”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button