خیبر پختونخوا: ‘پولیو کی ہر مہم میں تقریباً 17 ہزار بچے قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں’
رانی عندلیب
خیبرپختونخوا میں ہر سال پولیو مہم کے دوران مختلف وجوہات کی وجہ سے ہزاروں بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ پولیو کے خلاف ہونے والا پروپیگنڈا اور والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار بتایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے عالمی ادارہ برائے صحت کے اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر ٹی این این کو بتایا کہ خیبرپختونخوا میں اب بھی تقریبا 22 ہزار تک والدین بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں جس کی وجہ سے ہر مہم میں تقریبا 17 ہزار بچے پولیو کے قطروں سے محروم ہو جاتے ہیں۔
پشاور سے تعلق رکھنے والی دلشار کا شمار بھی ان والدین میں سے ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے کرتے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس لئے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتی کیونکہ پہلے ہی سے انکا سات سالہ بیٹا پولیو کے قطرے پینے سے معذور ہوگیا ہے۔
وہ کہتی ہیں ‘ اگر پولیو کے قطروں کے خلاف پروپیگنڈا ہے تو محکمہ صحت بتا دیں کہ اس قطروں میں کیا کیا شامل ہیں وہ اب تک اس بات پر کیوں خاموش ہیں ؟’
دوسری جانب طبی ماہرین دلشاد سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے سے بچوں کو پولیو ہونے کے اثرات کم ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی بچہ پولیو قطروں سے محروم ہوجاتا ہے تو خطرہ ہے کہ وہ پولیو کا شکار ہوکر عمر بھر کے لئے معذور ہوجائے۔
تاہم دلشار اب بھی ڈرتی ہیں کہ اس کا دوسرا بیٹا بھی پہلے بیٹے جیسے معذور نہ ہو اس لئے وہ اپنے کسی بھی بچے کو قطرے نہیں پلاتی۔
دلشاد کے بارے میں تو سوچا جا سکتا ہے کہ وہ شاید ناخواندہ ہونے کے باعث اور بیٹے کی معذوری کی وجہ سے ایسی ہوئی تاہم کئی خواتین ایسی بھی ہیں کہ انکو لگتا ہے کہ پولیو سے بڑی بیماری بھی لگتی ہے اور اس سے بانچھ پن کے اور وقت سے پہلے بالغ ہونے کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
دلشاد کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے ملک میں پولیو مہم پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے؟ لوگ جو مہنگائی کی وجہ سے بھوک سے مر رہے ہیں حکومت کو انکی فکر کیوں نہیں ہے؟
دوسری جانب پشاور شہر کے شیر علی نے بھی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے دینے سے انکاری ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں دینا چاہتے، تو انہوں نے کہا کہ ‘ان کو کیا پتہ کہ پولیو کے قطروں میں کون کون سی چیزیں شامل ہوتی ہیں تاہم انہوں نے یہ ضرور سنا ہے کہ پولیو کے قطرے اکثر بچوں کی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔
اس بارے میں جب پشاور شہر مہمند آباد علاقے کے ناظم میاں اعتبار گل سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پولیو کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں انکار آنے کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ پر پولیو مہم کے خلاف موجود افواہیں ہیں جس کے نتیجے میں زیادہ تر بچے پولیو مہم کے دوران ‘دستیاب نہیں’ کی فہرست میں شامل ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ لوگ ان پڑھ ہیں جو بھی کوئی پروپیگنڈا کرتا ہے لوگ ان پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘جب پولیو اہلکار گھروں میں جاتے ہیں تو والدین اپنے بچوں کو چھپا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نانی یا کسی اور رشتہ دارکے گھر گئے ہیں یا پانچ سال سے کم کوئی بھی بچہ اس گھرمیں نہیں ہیں۔’
ناظم میاں اعتبار گل نے یہ بھی کہا کہ اس کا حل یوں نکالا گیا ہے کہ اب اڈوں پر ہر آنے جانے والی بسوں میں موجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور ‘ساتھ ہی جن علاقوں میں یہ بچے جاتے ہیں وہاں پر موجود پولیو ٹیموں کو خبردی جاتی ہے تاکہ وہ وہاں ان کو پولیو کے قطرے پلا دیں۔’
اس بارے میں ای او سی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جب پولیو مہم کا آغاز کیا جاتا ہے تو ہر ضلع میں ہدف 2.6 ہوتا ہے ہر مہم میں ان آئی ڈی ایس ہوتا ہے یعنی پورے پاکستان میں پولیو کا مہم پورے عملی منصوبے کیساتھ ہوتا ہے۔
پاکستان میں کچھ مخصوص اضلاع ہیں جو ہائی رسک والے ہوتے ہیں تو وہاں پر اس لحاظ سے پولیو کے مہم چلاتے ہیں اور ساتھ میں سکیورٹی بھی ہوتی ہےہیں رفتہ رفتہ ان اضلاع میں پولیو کے کیسز کم ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کے بقول اس دفعہ پشاور میں انکاری والدین بہت کم ہے تقریبا ایک ہزار سے بھی کم، پشاور میں تقریبا دس لاکھ بچے ہیں جن کو ہر مہینے پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں اس میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو ایک دوسرے کے گھر مہمان بن کر چلے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پولیو ورکرز پر قاتلانہ حملے اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ ان کو ڈرایا دھمکایا جائے اس کے علاوہ ان کے اپنے بھی کچھ ذاتی تنازعے ہوتے ہیں، یہ قاتلانہ حملے بھی انہی دنوں میں شروع ہوئے تھے جب پشاور میں بہت زیادہ بم دھماکے ہوتے تھے جبکہ ایسا اب کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پشاور میں بچوں کی تعداد6199824 ہیں.6169540 کو ہر مہینے پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں یعنی 99,51 فیصد بچوں کو، 22268 بچوں کے والدین انکاری ہیں اور ابھی تک 17,179بچوں کو پولیو کے قطرے بالکل بھی نہیں پلائے گئے۔