شادی پر برسوں پرانے خاندانی جوڑے پہننے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے
انیلا نایاب
شادی پر برسوں پرانے خاندانی جوڑے پہننے کا رواج عام ہوتا جارہا ہے شادی زندگی کا وہ اہم ترین دن ہوتا ہے جس کی تیاری کئی مہینوں پہلے شروع کر دی جاتی ہے ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس خاص دن پر وہ انتہائی خوبصورت لگے دلہن کی ہر چیز اور خاص طور پر سب سے زیادہ توجہ دلہن اور ولیمے کے جوڑے پر دی جاتی ہے۔
لڑکی کا اپنی شادی پر لاکھوں کا قیمتی جوڑا پہننے کی بجائے والدہ، دادی یا ساس کے شادی کا جوڑا پہننے کا فیشن بن گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے دلہن کی شادی کا لباس تیار کرنے میں مہینے لگ جاتے، پہلے ڈیزائن پسند کیا جاتا، پھر کاریگر کے دس چکر لگتے اور مہینے کی بجائے وہ ڈیڑھ مہینہ لگاتا۔گھر والوں کی کوشش ہوتی کہ سب سے مہنگا اور یونیک ڈیزائن کا جوڑا دلہن پہننے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج کل نیا ٹرینڈ بن گیا ہے کہ لڑکیاں اپنی ماں یا ساس کی شادی کا جوڑا پہنتی ہیں خاص طور پر فلمی ستارے اپنی ماں کا جوڑا پہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور انکی دیکھا دیکھی عام لڑکیاں بھی ویسا ہی کررہی ہیں۔
سابقہ وزیر اعظم کی بیٹی بختاور بھٹو بھی اپنی ماں کا جوڑا اپنی شادی پر پہنا چا ہ رہی تھی لیکن شاید سائز کی وجہ سے اپنی ماں کا جوڑا نہیں پہن سکی اور بلکل ویسا ہی جوڑا بنا کرپہنا۔ کچھ سال پہلے لڑکیاں ہزاروں کیا لاکھوں کا ولیمے کاجوڑا خریدتی اور بارات پر بھی لاکھوں کا لہنگا پہنتی اور اسکے ساتھ ساتھ ہزاروں کا آرٹیفشل سیٹ پہنتی پر اب دھیرے دھیرے یہ ٹرینڈ بھی ختم ہو رہا ہے۔
ہمارے ہاں تو یہ رواج کئی برسوں سے چلا آرہا ہے خواتین اپنی شادی کا جوڑا سنبھال کر رکھتی ہے اور جب اسکے بیٹے کی شادی ہوتی ہے تو اپنی شادی کا دوپٹہ لازمی نکال کر مہندی والے دن دلہے کے سر اور کندھوں پر ڈالتی ہے اور بارات والے دن بہو کے سر پر ڈالتی ہے یہ ایک رواج نہیں بلکہ اچھے شگون کے طور پر کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ شادی شدہ خاتون جس کی زندگی خوشحال ہوتی ہے تو اسکی شادی کا دوپٹہ رشتےدار پڑوسی اور تمام جاننے والے اپنی بہن بیٹی کی شادی پر اُدھار لیتے ہیں اور بارات والے دن دلہن وہ دوپٹہ اوڑھتی ہے یہ اس نیت سے کرتے ہیں کہ اس عورت کی طرح ہماری بیٹی بہن کی بھی زندگی خوشحال گزرے۔
میرے کزن کے لیے بھی اس کی امی نے اپنی شادی کا گولڈ ہار رکھا ہوا تھا کہ میری بڑی بہو یہ پہننے گی کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا تھا کہ اسکا ڈیزائن پرانا ہے لیکن میری خالہ کی خواہش تھی کہ نہیں بڑی بڑی بہو یہی ہار پہن کر میرے گھر آئیں گی، اس کے علاوہ میری امی کی شادی کا بنارسی دوپٹہ میں بھی کئی لڑکیوں کی شادی ہوئی ہے صرف اسی نیت سے کہ وہ بھی اسی طرح خوشحال زندگی گزرے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ فیشن بھی بدلتا ہے کبھی ایک طرح کا فیشن ہوتا ہے اور کبھی دوسری طرح کا لیکن آج کل جو ٹریند بنا ہوا ہے وہ مجھے خود بھی پسند ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کئی ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ٹرینڈ کے مطابق فیشن کرے لیکن غربت اور گھریلو حالات کی وجہ سے نہیں کرسکتی تھی پر اب جب شادی پہ ساس اور ماں کا شادی والا لباس پہننے کا رواج بن گیا ہے تو اچھا ہے کہ ساری لڑکیاں اس ٹرینڈ میں شامل ہوسکتی ہیں۔