دوسرا حصہ
ویسے یہ بات طے ہے کہ ہر ملک میں سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے سے قبل وعدے کرتي ہیں، ہر تقریر کی شروعات اور اختتامی کلمات پروٹوکول کے خاتمہ پر مبني ہوتے ہیں۔ پندرہ اگست کے بعد طالبان اقتدار پر براجمان کئی ہستیوں کے گھروں کو قبضے میں لے کر وہاں ان کی پرتعیش زندگی دنیا کو دکھانے لگے تو دوسری طرف ان کی قیادت نے وہی پروٹوکول اپنا کر قافلوں کی شکل میں شہر میں گھومنا پھرنا شروع کردیا۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ حکومت میں آ کر ہی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔
سفرنامے کا پہلا حصہ :"جب افغان طالب نے میرا میڈیا کارڈ دیکھ کر پوچھا (وٹ ہیری ڈینگ؟”)
طالبان کی بدری فورس کو ائیرپورٹ اور اہم سرکاری عمارتوں کی سیکورٹی کی کمان حوالے کی گئی ہے جبکہ دیگر طالبان شہر میں امن امان اور گشت کرنے پر مامور ہیں۔ بیس سال پہلے والے طالبان جب کابل میں داخل ہوئے تو ان کو راستوں، چوراہوں اور دیگر علاقوں کے راستوں کا پتہ نہیں تھا۔ جیسے میں پوچھ پوچھ کر منزل تک پہنچتا تھا ویسے ہی طالبان بھی عام شہریوں سے راستہ پوچھتے تھے۔
کابل کے بازاروں کی خوبصورتی، عوامی پارک اور چڑیا گھر نوعمر طالبان کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی علاقہ کی گشت والی گاڑی چڑیا گھر کےسامنے سے گزرتی تو طالبان جنگلی حیات کی یاترا کے لئے ضرور اترتے۔ عوامی پارکوں میں طالبان اپنی بندوقیں ایک دوسرے کو حوالے کرکے جھولوں سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔
طالبان کے آنے کے بعد حبیب اللہ زازئی پارک میں عام شہریوں کی آمد میں کمی آئی تھی مگر یہ کمی طالبان نے پوری کر دی، پارک میں کشتی نما جھولا طالبان فورس میں شامل سترہ اٹھارہ سال عمر کے نوجوانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے۔
طالبان کابل میں من پسند پکوانوں کا ذائقہ ضرور چکتے مگر آئس کریم تو جیسے ان کی کمزوری تھی۔ شہر نو میں آئس کریم بیچنے والے اسماعیل سے پوچھا کہ کیا طالبان آئس کریم شوق سے کھاتے ہیں؟ جواب دیا کہ شائد صبح ناشتے میں آئس کریم نہیں کھاتے باقی تو آئس کریم خریدنے کے لئے دکان میں صرف طالبان ہی آتے ہیں، مسکرا کر مزید کہا کہ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو شائد ٹھٹھرتی سردی میں بھی آئس کریم کا کاروبار چلتا رہے گا۔
ایک مارکیٹ میں ضرورت کی کچھ چیزیں خرید رہا تھا کہ اچانک طالبان کی دو گاڑیاں نمودار ہوئیں اور گاڑیوں میں سوار تمام طالبان بندوقیں ساتھ لے کر دکان میں داخل ہوئے۔ میرے اور دکاندار کے تاثرات اور چہرے کا رنگ ایک جیسا ہی تھا، میں نے سلام کا جواب دے کر خود کو مصروف ظاہر کرنے کی نقلی کوشش کر رہا تھا جبکہ دکاندار کے ساتھ درجن بھر طالبان نے فرداً فرداً ہاتھ ملایا۔ سلام دعا کے بعد دکان میں خاموشی چھا گئی اب دکاندار کاونٹر کے اس پار خاموش کھڑا ہے اور ” کیا چاہیے” کہنے کی ہمت تک بھی نہیں ہے اور طالبان کھانے کی اشیاء کو گھور رہے ہیں، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ کیا چیز خریدیں۔ قدرے بڑی عمر والے طالب جب دکان میں شیر مال، ٹوسٹ، بسکٹ، پیسٹریز اور دیگر اشیاء کو خوب گھورنے کے بعد کہا کہ مجھے تو ان کی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔ پھر دکاندار کو سمجھ آیا اور اس نے ان تمام اشیاء کے بارے میں بتا دیا کہ اس کی کتنی قیمت ہے وغیرہ وغیرہ۔ طالبان میں سے ایک نے سیدھا سیدھا پوچھ لیا کہ ایسی کون سی چیز کھائی جائے کہ بس بھوک ختم ہو جائے، دکاندار نے جواب دیا کہ یہ ٹوسٹ چائے کے ساتھ کھائیں پیٹ بھر جائے گا۔ اب طالب ٹوسٹ کے سائز اور دوستوں کی تعداد کو دیکھ رہا ہے مگر کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہے۔دکان سے باہر دوست نے آواز دی کہ (کسان شمیر کہ او رواخلہ یی قہوہ بہ ورسرہ پخہ کو) یعنی بس لے لو قہوہ کے ساتھ کھا لیں گے۔ جی تو فیصلہ ہو گیا۔ اب سب جیب سے پیسے نکال رہے ہیں، پیسے سب نے جمع کیے اور کاونٹر پر رکھ دیے۔ دکاندار حیران ہے کہ کیا کرے، ٹوسٹ کے کتنے پیکٹ دے، طالب اسے کہہ رہا ہے کہ اتنے ٹوسٹ دو کہ ہمارا کام ہو جائے۔ خیر دکاندار نے کچھ کر کے حساب برابر کر دیا۔ تمام طالبان چلے گئے۔ دکاندار کی نظر مجھ پر پڑی اور کہنے لگا کہ کہ آپ گونگے ہیں یا گونگا بننے کی ایکٹنگ کررہے تھے۔ دکاندار بتا رہا تھا کہ ایک چیز خریدنے کے لئے جب ایک درجن سے زائد طالبان بندوقوں کے ساتھ آتے ہیں تو میں بھی کچھ دیر کے لئے گونگا ہو جاتا ہوں۔
طالبان کی خاصیت تھی کہ ملتے وقت پہلے ہاتھ ملا کر سلام کرتے تھے جس سے سامنے والے بندے کو بات کرنے میں آسانی ہوتی تھی۔ شہر کے دہمہ زنگ چوک میں رش کے باعث گاڑیوں کی لائن لگ گئی تو ایک طالب ہنس ہنس کر سب کو بتا رہا تھا کہ ملک کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے، جلدی میں آپ لوگ جا رہے ہیں۔
کم عمر طالبان کے شوق بھی نرالے تھے، ایک چوک میں گاڑی کھڑی کی تھی اور ایک دوسرے کی تصاویر کھینچ رہے تھے۔ کبھی گاڑی میں سوار ہو کر کبھی گاڑی سے اتر کر کبھی ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ ڈال تصاویر لے رہے تھے۔ جیسے ہی ان کے امیر صاحب کی گاڑی قریب آئی تو سب نے موبائل چھپا کر سلام کیا۔ امیر صاحب نے فقرہ کسا کہ تصاویر لینے کے لئے سب کو قندہار بھیج دوں کیا، تصویروں سے کام ہوتا تو ہم اب حکومت نہیں بلکہ فلموں میں کام کرتے، تمام کے تمام آگے پیچھے ہو کر امیرصاحب کی نظروں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔ مقامی صحافی دوستوں نے بتایا کہ طالبان نے تنظیم کا ایسا ڈھانچا بنایا ہےکہ اعلیٰ قیادت سے جو بھی حکم آتا اور قیادت میں حکم جس کسی کا بھی ہو تمام طالبان فورس اس پر لبیک کہتی ہے اور یہی ان کے منظم ہونے کی سب سے بڑی مثال ہے۔
کابل میں شہر نو پارک اب مختلف صوبوں میں بے گھر ہونے والے افراد کا مسکن بنا ہے، جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد ہے، اور جن کا اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا اب افغانستان کی اس نئی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے ( جاری ہے)