لنڈی کوتل: مسیحی برادری کی واحد ایم فل لڑکی ہما مسیح کا خواب پورا ہوگیا
شاہ زیب آفریدی
پسماندہ ضلع، اقلیتی برادری، غربت اور منفی معاشرتی روئے ہر موڑ پر ہما مسیح کی راہ میں حائل رہیں لیکن انہوں نے یہ رکاوٹیں اپنے لئے کامیابی کی سیڑھیوں میں تبدیل کئے اور آگے بڑھتی گئی۔ قبائلی ضلع خیبر تحصیل لنڈی کوتل کی یہ چوبیس سالہ باہمت ہما اپنے علاقے میں مسیحی برادری کی پہلی لڑکی بن گئی جنہوں نے ایم فل تک کا سفر طے کر لیا۔
”سب سے زیادہ مشکلات مجھے پیسوں کے معاملے میں پیش آئیں کیوں کہ میرے والد ایک کلاس فور ملازم ہیں اور ان کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ مجھے اعلیٰ تعلیم دلوا سکے” ہما نے بتایا کہ بارہویں جماعت کے بعد ان کے لئے تعلیم جاری رکھنا ممکن نہیں تھا لیکن گھر والے ان کی ڈھارس بن گئے اور تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کی۔
گھر والے انہیں آگے بڑھتا تو دیکھنا چاہتے تھے لیکن ہما کو اپنے حالات کا اندازہ تھا اور ان پر مزید بوجھ نہیں بننا چاہ رہی تھی۔ اس دوران انہیں ایک سکالرشپ کے حوالے سے معلومات ملی اور کوئی وقت ضایع کئے بغیر اس کے لئے اپلائی کر دیا۔
"میرے چونکہ ایف ایس سی میں نمبرز اچھے آئے تھے اور دوسری کسی اقلیتی لڑکی نے اس سکالرشپ کے لئے اپلائی بھی نہیں کیا تھا تو مجھے وہ وظیفہ بہت آسانی سے مل گیا اور یہی میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا” ہما نے کہا کہ سکالرشپ میں ان کی پشاور یونیورسٹی میں بی ایس کی پڑھائی مکمل طور پر مفت کر دی گئی۔
لنڈی کوتل سے روزانہ پشاور یونیورسٹی آنا جانا بھی ہما کے لئے ممکن نہیں تھا جبکہ ہاسٹل میں رہائش کی ان کے مالی حالات اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اس مسئلے کا حل انہوں نے اس طرح نکالا کہ کلاسز کے بعد کوچنگ اکیڈمی میں ٹیچنگ شروع کر دی اور اپنے خرچے نکالنے لگی۔ بی ایس کے بعد اب ایم فل میں بھی ان کا یہ سلسلہ جاری ہے۔
اپنی ہمت، قابلیت اور گھر والوں کے تعاون سے ہما کا اعلیٰ تعلیم کا خواب تو سچ ہوگیا لیکن وہاں پر مقیم دوسری لڑکیوں کی حالت بالکل بھی ایسی نہیں ہے۔
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں بھی مسیحی برادری کے 120 خاندان آباد ہیں جن کی کل آبادی 1500 تک ہے لیکن دیکھا جائے تو ان کو بنیادی سہولیات میسر نہیں جن میں تعلیم بھی آتی ہے۔ ضلع خیبر لنڈی کوتل کی مسیحی برادری اور بالخصوص لڑکیوں میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔
اسی برادری کے مقامی رہنما ارشد مسیح کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تعلیم ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن آج کل تعلیم بہت مہنگی ہو چکی ہے، کتابیں بھی مہنگی ہو گئی ہیں، اس طرح فیس بھی۔ سکول اور کالجز دو تین مہینے بند ہو جاتے ہیں لیکن فیس تو دینی پڑتی ہے، ”مسیحی برادری کے لوگ بڑی مشکل سے اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھتے ہیں، ان لوگوں کے ساتھ اتنے وسائل نہیں ہیں، پہلے فاٹا تھا تو ان کو ان کے حقوق نہیں ملتے تھے لیکن اب چونکہ فاٹا ضم ہو گیا تو اب اقلیتی برادری کو بھی حقوق ملے ہیں لیکن ان کی آمدنی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا”
کوئی اچھے کالج میں جانا چاہے تو اسے اپنے آپ کو دیکھنا پڑتا ہے کہ میں یہاں پڑھ سکتا ہوں، کیا میرے والدین میرا خرچہ برداشت کر سکیں گے، اگر میں نے داخلہ لیا اور اگر فیس زیادہ ہوئی تو میرے والدین کیا کریں گے، اس وجہ سے ہمارے بچے یا بچیاں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے، ”اس طرح اگر کوئی بچہ کوئی کورس کرنا چاہے تو وہ اپنے وسائل کو دیکھ کر آگے نہیں پڑھ سکتا اور چونکہ ان کے وسائل کم ہوتے ہیں اس لئے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے، ہر خاندان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے اور بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔”
ارشد مسیح کے مطابق لنڈی کوتل میں تعلیم کی شرح 40 فصید تک ہے، ”پہلے کی نسبت اب تعلیم کی شرح بہتر ہے، وسائل کی وجہ سے تعلیم کی شرح ہماری کمیونٹی میں کم ہے.
رائٹ ٹو انفارمیشن سے وابستہ نکاش بھٹی کا کہنا ہے کہ سٹوڈنس کو سکالرشپ دی جاتی ہیں، یہ سکالرشپ سرکار کی طرف سے ہر سال گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ کو دی جاتی ہیں، یہاں پر کرسچئن کمیونٹی کی صرف 10 فیصد کے قریب لوگ بی اے تک پہنچتے ہیں، اس میں دو یا تین فیصد تک لوگ ایم ایس اور بی اے تک کی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں، لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بہت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مسیحی برادری کا سب سے بڑا مسئلہ ایجوکیشن ہے یہاں کے لوگوں میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے، کرسچئن کمیونٹی کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہاں جتنے کلاس فور کی نوکری کرتے ہیں وہ زیادہ تر کرسچئن ہی ہیں، چونکہ ان کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں اس لئے ان پیسوں سے ان لوگوں کا گزر بسر بھی بہت مشکل سے ہو پاتا ہے، اس وجہ سے بچوں کو پڑھانے کے بجائے ان کو نوکری دلوانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں اور یوں بہت کم لوگ پڑھ پاتے ہیں اور بہت کم لوگ ماسٹر یا ایم فل کرتے ہیں۔
جن طلبہ کو سکالرشپس دی جاتی ہیں ان کو تقسیم کیا گیا ہے، کالج تا یونیورسٹیز لیول کے ساتھ ساتھ ڈپلومہ اور پی ایچ ڈی اور میڈیکل کرنے والے طلباء کو بھی سکالرشپس دی جاتی ہیں۔
ملک کے دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی مائنارٹی کمیونٹی کے طلبہ کیلئے الگ سکولز ہیں جن کو مشنری سکول کہا جاتا ہے جن میں سینٹ جان، سینٹ میری، ایڈورڈ کلج شامل ہیں۔
سکول تو اپنے ہیں لیکن عیسائی برادری میں جو امیر گھرانوں کے بچے ہوتے ہیں وہی ان سکول اور کالجز تک پہنچتے ہیں۔
ارشد مسیح نے بتایا کہ پھر بھی اس برادری کے لئے سکولز تو ہیں اور مواقع بھی ہیں لیکن لوگوں میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کی طرف آ جائیں۔
سرکاری نوکریوں میں نان مسلم کیلئے پانچ فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے لیکن نوکری انسان کو تب ہی ملے گی جب اس کے پاس تعلیم ہو گی، ہماری نوجوان نسل کو بالکل بھی یہ پتہ نہیں کہ ہر جگہ ان کے لئے پانچ پرسنٹ کوٹہ مقرر ہے، نوکری میں بھی اور تعلیم میں بھی، جو ہمارے مذہبی رہنما ہیں، جو سوشل اور پولیٹیکل ایکٹیوسٹس ہیں ان کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اب حکومت نے علان کیا ہوا ہے کہ ہر ضلع میں کلج کے لیول پر ایک سیٹ اقلیتوں کے لئے مختص کی جائے گی، اس حوالے سے بھی بہت سے بچوں کو پتہ نہیں ہوتا اور داخلے سے رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح پشاور یونیورسٹی میں ہر بھی شعبہ کے اندر ایک سیٹ مختص ہے اور یہ سیٹ خالی جاتی ہے کیونکہ جو امیدوار ہیں ان کو پتہ نہیں ہوتا۔ جو امیدوار ہوتے ہیں ان کا فوکس کچھ سبکجیٹ پر ہوتا ہے اور اس طرف ان کا دھیان نہیں جاتا۔
ارشد مسیح نے کہا کہ جب تک اقلیتی برادری کو اپنے لئے دستیاب ان مواقعوں سے اگاہ نہیں ہوں گے وہ تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے اور جب تعلیم نہیں ہوگی تو یہ لوگ اچھی نوکریوں کی بجائے یونہی اس، جھارو، صفائی اور دیگر کلاس فور ملازمتیں کرتے رہیں گے۔
ارشد مسیح نے یہ بھی بتایا کہ بعض اقلیتی برادری کے بچے یہاں پر رائج نصاب کی وجہ سے بھی تعلیمی ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔
مثلاً اگر ہندو بچہ پڑھ رہا ہے سکول میں، اس کے پاک سٹڈی کی کتاب میں یہ آ جائے کہ ہندو مکار ہے یا عیار ہے یا جو کرسچئن ہیں وہ انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں تو اس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے خاص طور پر غیرمسلم کمیونٹی اور سٹوڈنٹس کو بڑی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حکومت اگر کورس سمیت اقلیتی طلبا کو درپیش مسائل حل کر لے تو بعید نہیں کہ وہاں ہر گھر سے ہما جیسی قابل لڑکیاں تعلیم کی میدان میں آگے آئیں۔
ہما مسیح اپنی کمیونٹی کی لڑکیوں کے لئے رول ماڈل تو بن گئی ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ آگے ان کے اور بھی بہت سے خواب ہیں جن میں اپنے علاقے کے بچیوں کے لئے تعلیمی میدان میں خدمات سرانجام دینا سرفہرست ہے۔”میری خواہش ہے کہ میں ایک ایسا سکول یا کالج بناؤں جہاں پر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا خواب دیکھنے والی لڑکیوں کو اچھی طرح گائیڈ کروں اور ان کو سپورٹ ملے۔” ہومہ مسیح نے بتایا۔