‘نقص میرے شوہر میں تھا اور بچہ نہ ہونے کے طعنے مجھے مل رہے تھے’
انیلا نایاب
‘اولاد نا ہو تو صرف عورت کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے کہ یہ خاتون بانجھ ہے، جب میری شادی کو 5 ماہ ہوگئے اور گھر والوں کو کوئی خوشخبری نہیں دی تو لوگوں کے طرح طرح سوالوں نے جیسے ذہنی مریض بنا دیا تب ڈاکٹر کے پاس گئی’ یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی سکینہ(فرضی نام) کا۔
سکینہ نے بتایا کہ ڈاکٹر نے میرے ٹیسٹ کرائے اور میرا علاج شروع ہوگیا علاج کرتے کرتے دو سال گزر گئے ان دو سالوں کے دوران کئی بار ڈاکٹر نے میرے شوہر کے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا میرا یہ میاں سن کر آگ بگولا ہوجاتا اور ساتھ میں کہتا یہ ڈاکٹر صحیح نہیں ہے اور میرا ڈاکٹر تبدیل کرواتا اس دوران شادی کو تین سال گزر گئے اپنے میاں کے سامنے روئی منّت سماجت کی اور ساتھ یہ وعدہ کیا کہ خدانخواستہ اگر ٹیسٹ میں کوئی خرابی نکلی تو یہ راز ہم دونوں کے درمیان تا قیامت رہے گا اور ہم کسی پر بھی ظاہر نہیں ہونے دینگے ڈاکٹر کے پاس جا کر جب ٹیسٹ کرائے پتہ چلا علاج کی ضرورت مجھے نہیں میرے میاں کو ہے علاج کرنے کے بعد اب ماشاء اللہ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔
نازش حیات جو کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں گائناکالوجسٹ ہے نے ٹی این این کو بانجھ پن کے بارے میں یعنی بچوں کا پیدا نہ ہونے کے وجوہات کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک بہت پریشان کن بات ہوتی ہے شادی شدہ جوڑے کے لئے جب ان کے بچے پیدا نہیں ہوتے ظاہر سی بات ہے کہ بچوں سے گھر کی آبادی ہوتی ہے۔
بچہ بننے میں ماہ باپ دونوں کا حصہ ہوتا ہے ظاہر ہے کہ جس جوڑے کے بچے پیدا نہیں ہوتے اور ان کے پاس آتے ہیں تو ان دونوں کے ٹیسٹ کراتے ہیں یہ سوچنا کہ بچے کا پیدا نا ہونا اس میں صرف عورت یا صرف مرد قصور وار ہے عقل کے خلاف بات ہے جب ایسی صورتحال درپیش آئے تو اس جوڑے کو چاہیے کہ اس بات کے لیے تیار ہوکہ دونوں کہ ٹیسٹ ہونگے اس کا مقصد یہ ہے کہ وجوہات معلوم ہو جائے کہ کس کو علاج کی ضرورت ہے اور علاج ہونے کے بعد بچہ پیدا ہونا ممکن ہوجائے۔
ڈاکٹر نے کہا کہ جب تک دونوں کے ٹیسٹ نہیں ہونگے تو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ مرد میں کوئی کمی ہے یا عورت میں، کیونکہ جب تک یہ پتہ نہیں ہوگا کہ مسئلہ مرد میں ہے یا عورت میں تو تب تک چاہے علاج مرد کا ہو یا عورت کا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر نازش نے اپنی ذاتی تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی انکے پاس ساس بہو کے ساتھ آتی ہے اور پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے بیٹے میں کوئی کمی ہے لیکن پھر بھی وہ بہو کا علاج کرتی ہے۔
سب سے پہلے تو معاشرے کا رویہ تبدیل کرنا بہت ضروری ہے بانچھ پن صرف عورت کی بیماری نہیں ہے بلکہ مرد میں بھی بیماری ہوسکتی ہے۔
جوڑے کو ایک دوسرے پر اعتماد ہونا چاہیے ڈاکٹر کے پاس ایک ساتھ جانا چاہیے خاندان کو بھی یہ ایکسپکٹ کرنا چاہیے کہ مسئلہ دونوں میں سے کسی میں بھی ہوسکتا ہے ٹیسٹ کے بعد جس میں مسئلہ نہ ہو تو اسکو علاج کی ضرورت نہیں ہے۔
ڈاکٹر کے مطابق بانچھ پن میں چند باتیں ہیں اج کل لڑکیوں میں موٹاپا عام ہورہا ہے موٹاپا ویسے بھی ٹھیک نہیں ہے یہ کئی امراض کی جڑ ہیں اور بچہ پیدا نہ کرنے میں بھی موٹاپے کا بڑا کردار ہے لڑکیوں کو چاہیے کہ اپنا وزن بڑھنے نہ دیں پھر اگر بچہ نہ ہونے میں موٹاپا بھی شامل ہو جائے تو کافی مشکل ہو جاتی ہے صحت مند خوارک لینی چاہیئے جس میں قدرتی چیزوں کا استعمال مناسب آرام کرنا چاہیے مختلف سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے جو اؤورال جسم پر اثر انداز ہوتا ہے صحت مند عادت اپنانے چاہئیں۔ جوڑے کو ایک دوسرے پر اعتماد ہونا چاہیے بچہ پیدا نہ ہونے کی صورت میں مشترکہ کوشش کرنی چاہیے ایک مستند ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے ادھر ادھر جا کر اپنے پیسے ضائع نہیں کرنے چاہیے اور جب یہ ظاہر ہو جائے کہ مریض کون ہے تو اس حساب سے علاج کرنا چاہیے اور پھر انشاء اللہ علاج کا فائدہ ضرور ہوگا۔
دوسری جانب پشاور سے تعلق رکھنے والی جمیلہ کہتی ہے کہ جب انکی شادی کو ایک سال گزرا اور اولاد کی خوشی سے محروم تھی تب ایک اچھی گائناکالوجسٹ کے پاس گئی ٹیسٹ ہوئے ڈاکٹر نے بتایا کہ ان میں ایسی کوئی کمی نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ ماں نہیں بن سکتی سارے ٹیسٹ کلیئر ہے اور ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اپنے شوہر کو انکے پاس لائے اس وقت انکو پتہ نہیں تھا کہ ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات سے گھر میں طوفان کھڑا ہوسکتا ہے پھر وہی ہوا جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ باتیں سنی جو آج بھی یاد کرتی ہیں تو چند لمحوں کے لیے دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ شوہر نے کہا ڈاکٹر کے پاس نہیں جاؤنگا جب کافی اسرار کیا تو کہا اگر بچہ ضرور چاہیے تو انکو چھوڑ کر دوسرے مرد سے شادی کر لو بچہ پیدا کر لو وہ دن اور اج کا دن وہ بات نہیں دہرائی۔ انہوں نے کہا کہ شادی کو 40 سال ہوگئے ہیں اور عمر60 سال ہے اولاد نہ ہونے کی خواہش دل میں رہ گئی ہے۔