عربہ
آئے روز ہم ٹی وی پر اور اخباروں میں دیکھتے ہیں کہ بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور کچھ واقعوں میں تو بچوں کو جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔ میرے اپنے بھی بچے ہیں جب میں کوئی ایسا واقعہ دیکھتی ہوں تو مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کہ خدانخواستہ کہیں میرے بچوں کے ساتھ ایسا نہ ہوجائے کیونکہ میرا بیٹا ایسے واقعے سے بال بال بچا ہے۔
میرا گیارہ سال کا بیٹا ہے، وہ اپنی پھپھو کے گھر سے ہر شام دودھ لاتا ہے، ہر روز ہم اس کو زبردستی دودھ لانے کے لیے بیجتے تھے کیونکہ وہ کہتا تھا کہ وہ نہیں جانا چاہتا دودھ لانے کے لیے، ایک دن ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں ہر روز یہ کہتے ہو کہ میں نہیں جانا چاہتا تو اس نے یہ بات بہت ڈر ڈر کے بتائی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر میں ڈرتا ہوں تو ہم نے اس سے کہا کہ بیٹا کیا بات ہے ایسی کیا بات ہے جو تم کہنے سے ڈرتے ہو تو وہ کہنے لگا کہ وہاں پھر دو لڑکے ہیں جو مجھے تنگ کرتے ہیں ہم نے اس سے بہت پیار اور محبت سے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ وہ تمہیں کیسے تنگ کرتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں تو اس نے جو کہا وہ سننے کے بعد ہمارے کان کھڑے ہوگئے کیونکہ اس نے بتایا کہ وہاں پر وہ ویران جیسی جگہ جو ہے وہ مجھے اس طرف کھینچتے ہے اور کہتے ہے کہ تم ہمارے ساتھ اس جگہ پر چلو ہم وہاں پر تم سے بات کرنا چاہتے ہیں، پھر میرے بیٹے نے کہا کہ میں یہ بات سن کر وہاں سے بھاگا جلدی جلدی گھر ایا۔
پھر جب دوسرا دن تھا تو اس کہ باپ نے ان سے کہا کہ تم آگے آگے جاؤ میں تمہارے پیچھے پیچھے آؤں گا جب وہ تمہارے قریب اجائے تو پھر میں ان کو دیکھ لونگا ، پھر وہ گھر سے نکل گئے تو میں بیٹھ کر بہت ہی زیادہ پریشان اور خوف زدہ تھی بار بار اپنے شوہر کو فون کرتی تھی لیکن اس ٹائم وہ میرا فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا اور میں بہت پریشان تھی پھر جب وہ گھر واپس گھر ائے تو اس نے کہا کہ جب وہ دو لڑکے انکے قریب انے لگے تو میں جلدی ہی پکڑنے کے لیے ان کی طرف دوڑا لیکن ان لڑکوں کے ساتھ موٹرسائیکل تھی کہ وہ اس پھر بیٹھ کر تیز بھاگے اور میں ان کو نہیں پکڑپایا لیکن اب تک اس دن کو لے کر میں بہت پریشان ہوں اور ہر روز شوہر سے کہتی ہوں کہ چلو شہر چلتے ہیں لیکن وہ یہ بات کہتا ہے کہ ہم اپنا شہر کیوں چھوڑے اور بچوں کو گھر سے باہر نہیں جانے دیتے ہیں۔
ایک اور واقعہ بھی ہوا ہے ہمارے پڑوس میں جس میں ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایک دس سال کا بچہ ہے جس کو کوئی چھیڑ رہا تھا جو شخص اس بچے کو چھیڑ رہا تھا اسکی عمر 25 سال ہے، میں نے محلے والوں سے سنا ہے کہ اس شخص نے اس بچے کے ساتھ زیادتی کی ہے اور اس بچے کی ماں نے پولیس میں رپورٹ بھی درج کرائی ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پولیس میں رپورٹ کرنے کے بعد اس کے بچے کے کچھ ٹیسٹ بھی کئے گئے ہیں جس میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، میں تو سوچ سوچ کے پریشان ہوجاتی ہوں کہ ہم آخر کس طرف جارہے ہیں اب ہمارے بچے بھی محفوظ نہیں ہے، جب کسی بچے کے ساتھ ایسا واقعہ ہوتا ہے تو نہ صرف بچے کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے بلکہ اس کا خاندان بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا کیونکہ معاشرے کے لوگ اس خاندان کا جینا حرام کردیتے ہیں۔
ایسے واقعات ماں اباپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں کیونکہ ہر ماں اور باپ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ انکے بچے محفوظ ہو اور غلط کاموں اور باتوں سے دور ہو کیونکہ جب انسان کے پاس عزت ہو تو جیسے اسکے پاس سونے کا خزانہ ہو، ہر ماں باپ کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو اواز اٹھانے کی ہمت دے اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ دوسروں کو غلط کاموں سے روکے۔