جنوبی کوریا نے افغان مہاجرین کو اپنا دوست قرار دے دیا
جنوبی کوریا نے اپنے ملک میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہا ہے اور کہا ہے کہ یہ پناہ گزین نہیں بلکہ ہمارے دوست ہیں۔ میٖڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان سے 378 افراد نے جنوبی کوریا کا رخ کیا ہے، جنوبی کوریا کے وزیر انصاف پارک بیوم گائے نے ان پناہ گزینوں کو ”ہمارے افغان دوست” کہا ہے۔
عوامی عدم اطمینان کو روکنے کی ایک واضح کوشش میں پارک نے جمعرات کو وضاحت کی کہ انخلاء کرنے والوں نے سالوں تک جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر کام کیا، سفارت کاروں اور ترقیاتی پیشہ ور افراد نے ملک کی تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کی، ان میں آئی ٹی پروفیشنلز ، ترجمان اور میڈیکل ورکرز شامل ہیں۔
پارک نے کہا، "وہ دور دراز ملک میں رہے ہیں لیکن واقعی وہ پڑوسیوں کی طرح ہیں جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔”
امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والی افراتفری میں افغانستان کے مرکزی ہوائی اڈے پر مایوسی کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں جب ہزاروں افراد طالبان کے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اچانک سکیورٹی خلا میں، خاص طور پر ان لوگوں کے نشانہ بننے کا زیادہ امکان تھا جنہوں نے بین الاقوامی فورسز کے ساتھ کام کیا تھا، اس لیے جنوبی کوریا کی حکومت نے بھی دوسرے ممالک کی طرح ان افغان خاندانوں کا اںخلا کیا جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا تھا۔
جنوبی کوریا ایک جزیرہ نما ملک جس میں نسلی یکسانیت کی تاریخ ہے بیرونی لوگوں کو خوش آمدید کہنے کی وسیع تاریخ نہیں رکھتا، اور ایسے میں ایک غریب جنگ زدہ اکثریتی مسلم ملک سے سینکڑوں لوگوں کو لانے کے حکومتی فیصلے کو بعض حلقوں میں ناپسندیدگی کا سامنا رہا۔
یہ گروپ میڈیکل پروفیشنلز، ووکیشنل ٹرینرز، آئی ٹی ماہرین اور ترجمانوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کوریا کے سفارت خانے ہسپتالوں اور کورین جاب ٹریننگ سینٹر کے لیے کام کیا، 76 خاندانوں پر مشتمل ہے جن میں 150 سے زائد بچے ہیں۔
جنوبی کوریا کے سابق سفارت کار شن کاک سو نے، جنہوں اقوام متحدہ میں اور جاپان میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں، کہا ہے کہ "کوئی بھی اپنا گھر چھوڑ کر خوش نہیں ہوتا افغانوں نے اپنی زندگی اور آزادی کے لیے ایک مشکل انتخاب کیا ہے اور ہم ایک ذمہ دار ملک کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔”
حکومت نے کہا ہے کہ انخلاء کرنے والوں کو دارالحکومت کے جنوب میں ایک سرکاری سہولت میں کئی ہفتوں کے لیے رکھا جائے گا اور انہیں طویل مدتی قیام کے ویزے دیے جائیں گے جو بالآخر مستقل رہائش کا باعث بن سکتے ہیں۔