”اشرف غنی نے تحریری استعفی نہیں دیا، طالبان حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو گا”
محمد طیب
”افغانستان میں اشرف غنی حکومت کے بعد طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی قوانین، معاہدوں اور سفارتی محاذ پر شدید مشکلات کا سامنا رہے گا کیونکہ اطلاعات کے مطابق اشرف غنی نے ملک چھوڑتے ہوئے تحریری استعفی نہیں دیا ہے جس کی وجہ سے باہر دنیا میں سفارتی محاذ پر نئی حکومت کو قانونی پیچیدگیاں سامنے آ سکتی ہیں، کیونکہ اب بھی باہر ممالک میں سابق افغان حکومت کے سفیر تعینات ہیں۔
دوسری جانب افغانستان حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے ساتھ دستخط شدہ قوانین اور معاہدوں پر عمل درآمد میں بھی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ افغانستان رکن ملک ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ کے ساتھ دستخط شدہ قوانین اور معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔
اس کے علاوہ بیرونی دنیا اور ملکی سطح پر عوامی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے طالبان کی نئی حکومت کو انسانی حقوق کی پامالی سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ترکی، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی طرح شہریوں کو اقتصادی، سماجی اور دیگر آزادی دینا ہو گی، بچوں، خواتین کے حقوق پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔” ان خیالات کا اظہار پشاور ہائیکورٹ کے وکلاء طارق افغان ایڈووکیٹ، فرہاد اللہ آفریدی ایڈووکیٹ اور دیگر نے کیا۔
طالبان نے بیس سال بعد گزشتہ روز 15 اگست کو کابل کا اقتدار دوبارہ سنبھال لیا تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اس وقت طالبان کی نئی حکومت کو سفارتی، قانونی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ میں وکالت کرنے والے وکلاء طارق افغان ایڈووکیٹ، فرہاد اللہ آفریدی اور دیگر کا کہنا ہے کہ سفارتی محاذ پر نئی حکومت کو اس وقت اس لیے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق سابق افغان صدر اشرف غنی نے تحریری طور پر استعفی نہیں دیا ہے اور بیرونی دنیا میں اب بھی سابق حکومت کے سفیر موجود ہیں اور اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ حکومت اشرف غنی کابینہ کی ہے تو اس لحاظ سے افغانستان کے ملکی قوانین کے تحت نئے صدر کے انتخاب میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا اور ساتھ ہی دنیا کی سطح پر سفارتی تعلقات قانون کے مطابق کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کی مختلف حکومتوں نے گزشتہ بیس سال کے دوران اقوام متحدہ کے ساتھ انسانی حقوق، انسانی آزادی اور دیگر بنیادی حقوق کی پابندی کے حوالے سے معاہدے کیے ہیں لہذا طالبان کو اُن معاہدوں کی پاسداری میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ طالبان کے گزشتہ دور میں انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایسے اقدامات اُٹھائے گئے تھے جن پر دنیا کی مختلف اقوام نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور جس کی وجہ سے طالبان کی حکومت کو بیرونی دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
قانونی ماہرین کے مطابق اسلام اور دنیا کے قوانین نے انسان کو اقتصادی، سماجی اور شخصی آزادی دی ہے، انسانی حقوق سے مراد انسانوں کے تمام حقوق، روٹی کپڑا، مکان، تعلیم اور روزگار وغیرہ ہیں اور یہ سب مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، افغانستان اقتصادی لحاظ سے ایک غریب ملک ہے لہذا نئی حکومت کو انسانی حقوق کی پاسداری میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، ”طالبان نے خواتین کے حقوق اور تعلیم کے حوالے سے اگر پرانی روش اختیار کی تو اس سے دنیا کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بھی اخلاقی سپورٹ سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔”
قانونی ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ سال 2000 کے بعد بیس سال میں دنیا نے بہت ترقی کی ہے اور خصوصاً ڈیجیٹل دنیا میں بہت ترقی ہوئی ہے، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور طالبان کی مقامی اور علاقائی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو لوگ دنیا کے سامنے لائیں گے لہذا طالبان کی نئی حکومت کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی معاہدوں کے حوالے پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا بصورت دیگر افغان عوام کی اخلاقی سپورٹ ہاتھ سے نکلنے میں دیر نہیں لگتی۔