بلاگز

عبوری افغان حکومت کے متوقع سربراہ علی احمد جلالی کون ہیں؟

افغانستان میں درجن بھر صوبوں پر قبضے کے بعد طالبان کابل کے دروازے پر پہنچ چکے ہیں لیکن انہوں نے دارالحکومت میں جنگ کی بجائے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب چند ذرائع سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں صدر اشرف غنی استعفی دیں گے اور دونوں فریقین کے حتمی نتیجے پر پہنچنے تک عبوری صدارت علی احمد جلالی کے حوالے کی جائے گی۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ صدر (سابق) اشرف غنی اور امر اللہ صالح افغانستان چھوڑ کر جا چکے ہیں اور علی احمد جلالی کو نگران صدر مقرر کیا گیا ہے۔

افغانستان کی سیاست میں علی احمد جلالی کے اچانک نمودار ہونے پر زیادہ تر لوگ ان کے حوالے سے معلومات میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔

علی احمد جلالی کون ہیں؟

68 سالہ علی احمد جلالی 1940 کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ وہ 1981 میں کابل کے ہائیر ایجوکشن انسٹی ٹیوٹ کالج سے فارغ ہوئے اور 1988 میں برطانیہ کے سٹاف کالج سے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لی۔ وہ افغان فورس ملی اردو میں بھی رہ چکے ہیں جبکہ اس سلسلے میں جلالی نے برطانیہ اور امریکا میں آرمی ٹریننگ بھی لی ہے۔

افغانستان پر جب روسیوں نے حملہ کیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ چلے گئے اور وہاں پر میریلاند میں رہائش پذیر ہوئے۔ اس دوران انہوں نے وائس آف امریکا میں کام شروع کیا اور تقریباً 20 سال تک وہ اپنی صحافتی فرائض سر انجام دیتے رہے جس میں وہ پشتو، دری اور فارسی شعبے میں بطور سرابرہ کام چکے ہیں۔

2003 میں وائس آف امریکا کے ساتھ کام چھوڑنے کے بعد جلالی افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی کابینہ میں شامل ہوئے اور 2005 تک انہوں نے وزارت داخلہ کی ذمہ داریاں پوری کیں۔ مئی 2005 میں انہوں نے یہ منصب چھوڑ دیا اور دوبار امریکا چلے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ علی احمد جلالی اور صدر حامد کرزئی کے مابین اس بات پر اختلاف پیدا ہوا کہ جلالی کابینہ میں شامل ان افراد کا نام ظاہر کرنا چاہتے تھے جو منشیات کی سمگلنگ میں ملوث تھے تاہم کرزئی یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان افراد کے نام ظاہر ہوں جبکہ علی احمد جلالی نے ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟

علی احمد جلالی اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں ملکی دفاع کی یونیورسٹی میں سینٹرل ایشیاء کے ریسرچ مرکز میں بطور پروفیسر تعینات ہیں اور اس کے علاوہ وہ افغانستان کے حربی کالج، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی آف امریکا، یوسی آرمی وار کالج، یو ایس نیول پوسٹ گریجویٹ کالج، کمانڈ اینڈ جنرل سٹاف کالج اور برطانیہ کے آرمی سٹاف کالج میں بطور پروفیسر کام کر چکے ہیں ۔ وہ پشتو، دری، انگریزی، فرانسیسی اور روسی زبان بولنے اور سمجھنے پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔

علی احمد جلالی کئی کتابوں اور مقالوں کے منصف بھی ہیں جن میں زیادہ تر فوج کے حوالے سے ہیں۔ ان کی آخری کتاب ‘د غرہ ھا بلہ غاڑہ’ ( پہاڑ کی دوسری جانب) 2002 میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی جس میں 1979 سے لے کر 1989 تک مجاہدین اور روسیوں کے مابین ہونے والی جنگ کی تاریخ کا ذکر ہوا ہے۔

انہوں نے 2002 میں امریکہ اور جنگجو کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے حوالے سے ایک تحریر لکھی تھی جس میں امریکا پر تنقید کی گئی ہے کہ اس معاہدے کے تحت جنگجو افغانستان میں اور بھی مضبوط ہو گئے ہیں۔ جلالی کا 38 سالہ ایک بیٹا اور 31 سال کی ایک بیٹی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button