طالبان غزنی، ہرات اور قندھار کے بعد لوگر میں داخل
افغانستان آہستہ آہستہ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں طالبان نے افغانستان میں اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے ملک کے دوسرے بڑے شہر قندھار کے بعد صوبہ لوگر پر بھی قبضے کا دعوی کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ لڑائی میں قندھار پر قبضہ مسلح جنگجوؤں کی بڑی فتح اور افغان حکومت کے لیے اب تک کا سب سے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے لیکن اب صوبہ لوگر کی صوبائی کونسل کے دو ارکان نے بھی غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ طالبان صوبائی دارالحکومت پلِ علم میں داخل ہو چکے ہیں جہاں انھوں نے پولیس ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے اور شدید لڑائی جاری ہے۔ صوبہ لوگر کی سرحد کابل کے صوبے سے ملتی ہے اور پلِ علم سے سیدھی سڑک دارالحکومت کابل جاتی ہے۔
دوسری جانب قندھار کی مقامی حکومت کے ایک اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ گذشتہ رات فوج سے جھڑپوں کے بعد طالبان نے قندھار شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ادھر طالبان کے ترجمان نے بھی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ زابل اور ارزگان کے صوبے بھی ان کے کنٹرول میں ہیں، طالبان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی لڑائی کے بغیر زابل اور ارزگان کا کنٹرول سنبھالا ہے، جنوبی شہر اور صوبہ ہلمند کا دارالحکومت لشکر گاہ کے بھی طالبان کے قبضے میں جانے کی اطلاعات ہیں تاہم سرکاری طور پر ان دعوؤں کی تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ ہرات میں حکومت کا ساتھ دینے والے ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان کے بھی ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر طالبان لشکر کا حصہ بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اسماعیل خان کی طالبان جنگجوؤں کے ہمراہ تصاویر بھی گردش کر رہی ہیں، اسماعیل خان وہ کمانڈر ہیں جنہیں ہرات میں طالبان کے خلاف لڑائی کے دوران مکمل حکومتی حمایت حاصل رہی ہے۔
دوسری جانب امریکہ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے سفارتی عملے کو واپس لانے کے لیے قریب تین ہزار فوجی بھیج رہا ہے۔ خیال رہے کہ لوگر کے دارالحکومت پلِ علم پر قبضہ کے بعد یہ 13واں دارالحکومت ہو گا جو گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران طالبان کے قبضے میں جا چکا ہے۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اگر طالبان قومی امن مذاکرات کے لیے اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور اپنے زیر انتظام علاقوں میں القاعدہ سمیت کسی دہشت گرد عناصر کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں اور غیر ملکی افواج پر حملے بند کر دیں تو امریکہ اپنے فوجی اور اتحادی نیٹو افواج کو اگلے 14 ماہ میں افغانستان سے نکال لے گا۔
طالبان نے اس معاہدے کے تحت بین الاقوامی فوجیوں پر اپنے حملے بند کر دیے تھے تاہم افغان حکومت کے ساتھ لڑائی جاری رکھی تھی۔