آئس یا کرسٹل میتھ : معاشرتی ناسور کی شکل میں ایک اجتماعی روگ بن رہا ہے
مولانا خانزیب
دیگر بہت سی سماجی مسائل میں سے ایک معاشرے میں بڑھتے ہوئے نشے آئس کا پھیلاؤ ہے پختون سماج عمومآ اور پختونخوا کے نئے اضلاع خصوصاََ باجوڑ سے وزیرستان تک مسلسل جنگوں اور بدامنی کی وجہ سے ڈرگ مافیا کیلئے شہر ناپرسان ہوتے ہیں آج بھی ان علاقوں یہ نیا نشہ آئس کے نام اس پسماندہ سماج میں تشویشناک حد تک نفوذ کرکے اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔
ہر ایک نشہ اپنے اندر ھلاکت خیزی رکھتا ہے اسی لئے ایک حدیث میں رسول اللہ ص نے صاف فرمایا ہے کہ ( کل مسکر حرام ) ہر نشہ لانی والی چیز حرام ہے مگر موجودہ وقت میں آئس نامی نشہ معاشرے میں اتنی تیزی کیساتھ پھیل رہا ہے کہ اب یہ ایک معاشرتی ناسور کی شکل میں ایک اجتماعی روگ بن رہا ہے ۔
آئس نشہ پاکستان، افغانستان اور ایران کا مقامی ایجاد ہے اور اصل ایک نمبر آئس کے بنیادی میٹیریل کا کیمیکل "میتھ ایمفیٹامین” پختونخوا وطن میں پیدا ہونے والے ایک پھاڑی جڑی بوٹی سے لیا جاتا ہے جس کو ہمارے عرف میں ‘برڑہ’ کہا جاتا ہے جو بڑی مقدار میں افغانستان کے پہاڑوں میں اگتا ہے جبکہ اسے مصنوعی طریقے سے بھی اگایا جاسکتا ہے۔
اس کی پیداوار میں نمایاں اضافہ اس وقت ہوا جب منشیات کی سمگلنگ کرنے والوں نے دریافت کیا کہ افغانستان کے متعدد حصوں میں جھاڑیوں کے طور پر اگنے والے جنگلی پودے ایفیڈرا سے میتھ کا ایک انتہائی اہم جزو یعنی ایفیڈرین بنتا ہے۔
افغانستان کی منشیات کے صنعت کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس بات کے احساس نے کایا ہی پلٹ دی کہ پہاڑوں پر اگنے والا ایک جنگلی پودا آئس بنانے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
برڑہ کے حوالے سے ایک اور تاریخی رائے پختو ادب کے بعض محققین یہ بھی رکھتے ہیں کہ یہ تاریخی طور پر ‘سوما’ کے رس کا پودا ہے اور اس تاریخی مشروب کا بھی لازمی جز تھا جس کو ڈھائی ہزار سال قبل ‘زرتشت’ نے اپنے دور حرام کیا تھا جس میں دودھ شہد وغیرہ کا شیرہ مکس کر کے ایک مسحورکن مشروب پہاڑوں میں تیار کیاجاتا تھا اور چودہویں رات کے چاند میں دوشیزائیں پہاڑ پر جاکر بڑے پیمانے پر اسکی کٹائی کرتی تھی۔
آئس کی ایجاد سے پہلے پختونخوا میں نسوار کا نشہ کرنے والے لوگ ‘برڑہ ‘کے شاخوں کو جلاکر راکھ کرتے تھے اور نسوار کے نشے میں تیزی لانے کیلئے اس میں ‘برڑہ ‘ کے پودے کے راکھ کو شامل کرتے تھے جس سے اعلیٰ قسم کا نسوار تیار ہوتا تھا۔
اب اس پودے کی اس نشے کی خاصیت کو آئس بنانے والوں نے ڈھونڈا ہے اور اس کو بڑے پیمانے پر استعمال میں لارہے ہیں مگر اب جگہ جگہ ایسی فیکٹریاں بھی مختلف شہروں میں لگائی گئ ہیں جو مصنوعی خطرناک کیمیکلز کی آمیزش سے مصنوعی طور پر دو نمبر مہلک نشہ تیار کرتے ہیں ۔
اس نشے کی روک تھام دو طریقوں سے ممکن ہے ایک یہ کہ ہر ضلع کے سول ایڈمنسٹریشن کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ جس شہر میں یہ فیکٹریاں قائم ہیں انکا قلع قمع کیا جائے اس نشہ کے بڑے بڑے اسمگلروں اور سپلائزرز کا کھوج لگایا جائے جس شہر کا سول ایڈمنسٹریشن اس نشے کے بڑے مگر مچھوں کو گھیرنے میں ناکام ہوجائے انکو معطل کیا جائے جبکہ سماجی طور پر عوامی شعور کیلئے ممبرو محراب حجرہ بازاروں میں عوامی شعور کو بیدار کیا جائے ،والدین کو اپنے بچوں پر نگاہ رکھنے کیلئے پابند کیا جائے اگر سول انتظامیہ اس مسئلے کے جڑ کے بجائے اس نشے کے عادی معذور لوگوں کو پکڑ کر جیل میں ڈال کر پانچ سو روپے جرمانے کے عوض رہا کرتی ہے تو پھر یہ مزید پھیلے گا اور اسکا تدراک ناممکن ہو جائیگا جس سے پورا سماج خطرے سے دوچار ہوگا ۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر 2003ء میں منشیات کی اسمگلنگ سے 320 ارب ڈالرز کا بزنس کیا گیا تھا 2016ء میں منشیات کی اسمگلنگ سے500 ارب ڈالرز کا کاروبار ہوا تھا جو اب ایک ہزار ارب ڈالر کے قریب ہے۔
افغانستان میں آئس نشہ بڑے پیمانے پر ان علاقوں میں تیار کیا جاتا ہے جہاں پر طالبان کا کنٹرول ہے طالبان کی جانب سے منشیات سمگل کرنے والوں سے ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ای ایم سی ڈی ڈی اے کے رپورٹ کے مطابق طالبان صرف بکواہ ضلع سے سالانہ اندازاً 40 لاکھ ڈالر ٹیکس کی مد میں وصول کر رہے ہیں جبکہ بی سی سی کے ایک رپورٹ کے مطابق انکی مجموعی سالانہ آمدن میں چالیس کروڑ ڈالر منشیات کی آمدنی کے ذریعے آتا ہے جس میں افیون اور ہیروئن کی فیکٹریاں بھی شامل ہیں ۔ اس رقم میں کمی یا اضافہ ایفیڈرین یا میتھیمفیٹیمین ودیگر منشیات کی پیداوار کی مقدار میں کمی یا اضافے سے ہو سکتا ہے۔ تاہم طالبان منشیات کی تجارت سے کسی قسم کے تعلق کو مسترد کرتے ہیں۔
ایک افغان سمگلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے یہ ٹیکسز ان کسانوں پر بھی لگائے جاتے ہیں جو ایفیڈرا پوست بنگ وغیرہ کی فصلیں اگاتے ہیں اور ان پر بھی جو منشیات کی نقل و حمل کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کے چیک پوائنٹ ہر جگہ موجود ہیں، اس لیے آپ ان سے نہیں چھپا سکتے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ مخصوص اسلامی نظریات رکھنے والے طالبان منشیات کی فروخت کی مخالفت کیوں نہیں کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ طالبان کہتے ہیں کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اس لیے یہی صحیح ہے لیکن جب حالات معمول پر آ جائیں گے تو ہم اس پر پابندی عائد کر دیں گے۔
چونکہ اس نشہ کی کاروبار میں بہت بڑا پیسہ کمایا جاسکتا ہے اس لئے یہ نشہ ایک پرکشش روزگار بن رہا ہے ایک گرام اصل آئس 10ہزار سے 12 ہزار روپے کے درمیان میں فروخت ہوتی ہے جبکہ مصنوعی کیمیکل سے تیار کردہ عام آئس 1500 روپے سے تین ہزار روپے میں فروخت ہورہی ہے۔
آئس کی فروخت روایتی انداز کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کی جارہی ہے۔ منشیات فروش واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کو استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر منشیات فروش واٹس ایپ پر پیغامات بھیجتے ہیں اور اپنا شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آئس کا عادی بنانے کے لیے یہ گاہکوں کو ان کے گھر تک بھی پہنچائی جا رہی ہے۔ حکام نے کچھ ایسے گروپ پکڑے جو ٹیکسی سروس استعمال کرتے تھے۔ان میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی شامل تھے اور یہ گھروں میں جاکر ڈرگز پہنچاتے تھے۔ ایسے گروپ شہر کے پوش علاقوں میں سرگرم ہیں کیونکہ وہاں کے نوجوانوں کے لیے چار، پانچ ہزار روپے کا انتظام کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ پوش علاقوں کی ڈانس پارٹیز میں بھی آئس کا استعمال فیشن بنتا جارہا ہے اور اسے مہمانوں کے لیے سوغات کی طرح پارٹیوں میں رکھا جانے لگا ہے۔
مختلف کیمکلز سے تیار ہونے والے اس نشے کے عادی افراد میں دن بہ دن خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ ایک وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ زیادہ تر سیاستدان، تاجر، جسم فروش طبقہ، سرکاری افسران، ایلیٹ کلاس سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات بھی اس لت کا شکار ہو رہے ہیں.
آئس جس کا اصل نام "میتھ ایمفیٹامین” ہے جسے مختصراََ میتھ یا کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے۔ یہ جھاڑی نما مخصوص پودوں اور درختوں سے حاصل کئے جانیوالے ایک خاص کیمیکل کو کہتے ہیں۔ لیکن اب یہ کیمیکل مصنوعی یعنی سنتھیٹک طریقے سے بھاری مقدار میں لیبارٹریوں میں ایفیڈرین سے بھی تیار کیا جاتا ہے-
چرس اور ہیروئن کے پودوں کی کاشت اور ان کی اسمگلنگ میں منشیات فروشوں کو زیادہ مشکلات پیش آتی تھیں جبکہ اس کی بہ نسبت آئس کو لیبارٹری میں ایک مقام پر تیار کیا جاسکتا ہے۔کرسٹل میتھ نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرسٹل یا آئس نامی یہ نشہ میتھ ایمفٹامین نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔
ایفیڈرین نامی کیمیکل کھانسی نزلہ بخار کی ادویات بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور ہر فارماسیوٹیکل کمپنی اس کو ایک مخصوص مقدار میں کوٹے کے تحت حاصل کرسکتی ہے جس کی باقاعدہ بین الاقوامی طور پر مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ دور حکومت میں حنیف عباسی اور یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انتہائی بھاری مقدار میں یہ کیمیکل پاکستان منگوایا تھا جو مشہور زمانہ ایفیڈرین کیس کہلاتا ہے- حنیف عباسی کو اس کیس میں سزا ہوگئ تھی لیکن یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے ضمانتوں پر رہا ہیں –
اسی طرح پاکستان میں زائد المیعاد پیراسیٹامول، پیناڈول اور وِکس کو جرائم پیشہ گروہ کراچی میں جمع کرتے ہیں اور پھر اسے کوئٹہ میں مقیم پاکستانی اور افغان ڈرگ پیڈلر کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ان ادویات کو پیسوں کے عوض فروخت نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اسمگلر زائد المیعاد گولیوں کے چورے کے بدلے نیا نشہ کرسٹل میتھ فراہم کرتے ہیں۔ اس نئے نشے کو نوجوانوں میں آئس کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے جو کہ ہیروئن اور کوکین سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات کے مطابق ایکسپائر ہوجانے والی پیراسیٹامول، پیناڈول،وکس اور دیگر نزلہ، زکام کی ادویات سے اسمگلرز ایفیڈرین (Ephedrine ) اور ڈی ایکس ایم یعنی ڈیکسٹرو میتھورفان نکالتے ہیں جس سے مصنوعی طور پر دو نمبر آئس نامی نشہ تیار کیا جاتا ہے۔
افغانستان دنیا میں کرسٹل میتھ کی پیداوار کے اعتبار سے نمایاں مقام حاصل کر رہا ہے۔ ملک کی پوست کی فصلیں پہلے ہی دنیا بھر میں ہیروئن کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور اب مانیٹرنگ سینٹر فار ڈرگز اینڈ ڈرگز ایڈکشن (ای ایم سی ڈی ڈی اے) کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کرسٹل میتھ بھی ملک کی اتنی ہی بڑی صنعت بن جائے گی۔
نفسیات و منشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہات ہیں، جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے۔ یہ دباؤ جذباتی، معاشرتی، گھریلو حالات اور تعلیم کا بھی ہو سکتا ہے۔ منشیات کی لت کی دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے اور تیسری وجہ دوستوں کا دباؤ ہے۔ یعنی کچھ دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو دوستوں کے دباؤ میں آکر نوجوان اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق آئس کے مسلسل استعمال سے انسان میں خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کسی توانائی کے مشروب کی طرح جسم میں طاقت محسوس ہوتی ہے۔ آئس پینے کے بعد انسان کے اندر توانائی دگنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران انہیں بالکل نیند نہیں آتی۔
مسلسل آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں مارنے کے لیے سازش کررہا ہے۔
جب اس نشے سے پیدا ہونے والے فرحت بخش احساسات و جذبات ختم ہوتے ہیں تو نشہ کرنے والے پر اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جن میں آنکھوں کی پتلیوں کا بڑا ہوجانا، منہ کا خشک ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا، حرکت قلب میں بے ترتیبی، بلڈ پریشر اور جسمانی حرارت میں اضافہ، متلی اور قے، سانس پھولنا اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے وہ خلل دماغ، چڑچڑے پن، گھبراہٹ، تھکاوٹ، ڈپریشن اور ہیجانی رویے (impulsive behaviour) کا شکار ہوتا ہے۔