بلاگز

مرد کرے تو صحافت عورت کرے تو شوبز، کیوں ؟

لائبہ حسن

ہمارے معاشرے میں مردوں کی نسبت خواتین  کیلئے گھر سے باہر کام کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ قدامت پسند سوچ رکھنے والے معاشرے میں خواتین کو مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور  پھر صحافت جیسے شعبے میں آنا اور فیلڈ میں کام کرنا  ایک بڑے پہاڑ کو سر کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ صحافت  میں قدم رکھنے والے خواتین کو دیگر  مشکلات کے ساتھ یہ مسئلہ بھی پیش آتا ہے کہ انہیں سب سے پہلے اپنے گھر والوں (ماں، باپ، بھائی) اور خاندان کے دیگر لوگوں کو  منانا پڑتا ہے کہ وہ آپ کو فیلڈ میں کام کرنے کی اجازت دیں اور جب گھر والوں کی طرف سے اجازت مل جاتی ہے تو پھر معاشرہ ہمیں کام کرنے نہیں دیتا اور ہر روز لوگوں کی جانب سے ہمیں طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور طرح طرح کے لوگوں سے واستہ پڑتا ہے۔

جی ہاں! اسی طرح کا ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ ایک دن مجھے  اپنے  ادارے کی طرف سے ایک ٹاسک دیا گیا جس میں مجھے فیلڈ میں کام کرنا تھا۔ میں اپنی سہیلی کے ہمراہ نکلی اور پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار  پہنچی، جیسے ہی ہم وہاں پہنچے تو لوگ ہمیں عجیب و غریب قسم کی نگاہوں سے دیکھنے لگے، کچھ لوگ سیٹیاں  بجانے لگے تو کچھ لوگوں نے پیچھے سے عجیب آوازوں دینا شروع کیں۔ بہرحال میں نے ان سب کو نظر انداز کر کے موبائل فون اٹھایا اور آن کیمرہ رپورٹنگ کرنے لگی تو قریب موجود بزرگ مجھے اتنے غصے سے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں کوئی گناہ کر رہی ہوں۔

ایک لمحہ کیلئے میں سہم سی گئی کیونکہ دھوپ بہت زیادہ تھی اور شہر کی گرمی بھی ناقابل برداشت تھی۔ ہم نے بہت کوشش کی پر کوئی بھی ہمیں انٹرویو دینے کو تیار نہیں ہوا اور سب دکانداروں  نے ہمیں اپنے ہاں سے بھگایا۔ میں مایوسی کے عالم میں تھی، پھر میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ ہم اتنی گرمی میں یہاں تک پہنچے ہیں، اتنا سفر طے کیا ہے اس لئے ہم اپنا کام پوار کئے بغیر یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔

اللہ اللہ کر کے ہم ایک دکان  کے اندر داخل ہوئے، وہاں پر ایک 55 سالہ بزرگ بیٹھے تھے، انہوں نے نہایت احترام سے ہمیں بٹھایا اور پانی پلایا، اس کے بعد ہم نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں ان کے چند منٹ چاہئیں آپ سے بات کرنے  کے لئے۔ بزرگ نے کیمرہ کے سامنے بات کرنے سے معذرت کر لی اور دکان میں موجود ان کے بیٹے نے ہم سے بات کی اور  ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

بابا جی کے بیٹے سے بات کرنے کے بعد ہمارا ٹاسک مکمل ہو گیا اور اطمینان ہوا کہ اگر ہمارے راستے میں کتنی ہی  روکاٹیں کیوں نا ہوں لیکن مسلسل محنت کرنے سے کامیابی ملتی ہے لیکن دوسری طرف جب میں گھر پہنچی تو بہت افسوس ہوا کہ ہم اس قدر تنگ نظر معاشرے میں رہتے ہیں جہاں عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔

میں سوچتی تھی کہ اگر میری جگہ کوئی مرد ہوتا تو لوگ خوشی خوشی اس سے بات کرتے لیکن انہوں نے ہم سے  کیوں بات نہیں کی اور میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا، صرف اس لئے کہ میں لڑکی ہوں؟

اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں لوگوں  کی اس سوچ کو بدلنے کی کوشش کروں گی اور دوبارہ ان ہی علاقوں میں  اپنے صحافتی فرائض سرانجام دوں گی جہاں خواتین صحافیوں کے کام کو غلط  سمجھا جاتا ہے۔ لوگ  انہیں اداکاراؤں اور فنکاروں کے ساتھ جوڑتے ہیں، میں یہ نہیں کہتی کہ شوبز میں جانا غلط ہے، اگر غلط ہے تو وہ لوگ کی سوچ ہے جو  صحافت جیسے مقدس پیشے کو پہچانتے نہیں، یہی کام اگر کوئی مرد کرے تو وہ صحافی مگر ایک عورت کرے تو اسے صحافت کی بجائے شوبز کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ میرا عزم ہے کہ میں لوگوں میں شعور اجاگر کروں تاکہ جو برتاؤ میرے ساتھ ہوا کل کسی اور خاتون صحافی کے ساتھ ایسا نا ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button