”امتحان میں بیٹھنے سے پہلے آپ کے پاس سفارش ہونی چاہیے”
مریم انعم
آج میرے سکول میں دو سال کے طویل عرصے کے بعد پہلا دن تھا اور میں اپنا امتحان دینے کیلئے سکول میں موجود تھی۔ ان دو سالوں میں، میں نے کئی دفعہ اپنا کورس تیار کیا، کئی دفعہ مختلف ٹسٹ دیئے اور آج میں بہت مطمئن ہو کر سکول آئی تھی۔
آج میری دسویں کلاس کا پہلا پیپر تھا۔ فزیکس کا پیپر تھا۔ اس پیپر کو بھی میتھس کی طرح خشک سبجیکٹ مانا جاتا ہے اور کئی بچیوں کے چہروں پر خوف موجود تھا۔ میں کمرہ امتحان میں موجود لڑکیوں کی نسبت خود کو تھوڑا پرسکون محسوس کر رہی تھی شاید اس وجہ سے کہ میری تیاری زیادہ تھی۔ جیسے ہی پرچہ شروع ہوا ایک ٹیچر نے، جو میرے ہی سکول کی ہے، مجھ سے پیپر کا پہلا حصہ لیا جو میں نے دس منٹ میں لکھا اور اسے کمرہ امتحان میں موجود دوسری لڑکی کو دیا۔
میں نے اس دن کمرہ امتحان میں عجیب سا ماحول دیکھا۔ جس کا جتنا بس چلتا اتنا ہی ہاتھ پیر مارتا تاکہ اپنے بچیوں رشتہ داروں کی کسی نہ کسی طرح مدد کریں۔ ایک ٹیچر تو اپنے بھائی کی بیٹی کے ساتھ بغیر کسی ڈیوٹی کے کمرہ امتحان میں موجود تھی۔
دو بچیوں کو سپرانٹنڈنٹ نے اٹھا کر اپنے ساتھ سٹیج پر بٹھا دیا اور جواز یہ ظاہر کیا کہ اس میں سے ایک بچی کرسی پر بیٹھ کر لکھ نہیں سکتی کیونکہ اس کے ہاتھ میں کوئی مسئلہ تھا۔ میں نے جب دوسری لڑکی کا پوچھا تو معلوم ہوا وہ لڑکی سکول میں موجود ایک ٹیچر کی بیٹی تھی اور دوسری لڑکی کی پھوپھو کی بیٹی تھی۔
دوسری طرف ایک ٹیچر اپنے ہی بھائی کے سکول کا نام بڑھانے کیلئے ان کے شاگردوں کو مختلف طریقوں سے نقل پہنچانے کی کوشیش کر رہی تھی۔
اس دن مجھے یقین ہو گیا کہ کسی بھی امتحان میں بیٹھنے سے پہلے آپ کے پاس کوئی سفارش ہونی چاہیے، اگرچہ یہ بہت ہی چھوٹے لیلول کا امتحان تھا لیکن وہاں ڈیوٹی کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی ھاتھ پیر چلانے والا بندہ اندر جا سکتا تھا۔
وہ پرائیویٹ سکول اور کالجز جو بچوں کے والدین سے ہزاروں روپے بٹورتے ہیں ان کا امتحان کے دن یہ حال تھا کہ ہر کوئی اسی کوشش میں تھا کہ کسی طرح وہ اپنے سٹوڈنٹس کی مدد کریں تاکہ ان سے کوئی سوال نہ رہ جائے اور وہ اعلی نمبر لے کر اس سکول کا نام روشن کرے اور علاقے میں اس سکول کا نام ہو۔
اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ پرائیویٹ سکول اور کالجز تعلیم کے نام پر کتنا بڑا کاروبار کر رہے ہیں۔ گاؤں کے سرکاری سکولوں میں تو ویسے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں، اسی وجہ سے وہاں پڑھانے کا حق ادا نہیں کیا جا رہا لیکن گاؤں کی سطح پر تو پرائیویٹ سکولوں کا ایک نام ہے اور اس نام کے پیچھے کی کہانی آج مجھے معلوم ہوئی کہ کس طرح یہ ادارے اپنے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کے منہ پر کالک مل رہے ہیں، امتحان کے دوران ان بچوں کو، جنہوں نے پورا سال نہیں پڑھا ہوتا، نقل کراتے ہیں اور بس اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح ان کا نام ہو باقی اگر بچوں کو کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو انہیں بس اسی امتحان سے گزارا جاتا ہے اور طرح طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں کہ علاقے میں موجود دوسرے سکولوں پہ سبقت لے جائیں۔
انہیں کاروباری اداروں میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہوتی ہیں جن کے پاس جعلی ڈگریاں ہوتی ہیں یا ایسے اساتذہ جن کا کام صرف پیسے بنانا ہوتا ہے، قوم کے بچوں کے مستقبل سے انہی اداروں میں کس طرح کھلواڑ ہوتا ہے، سنا تھا، اس دن اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔