بلاگز

بچوں سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے

نازیہ جاوید

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پیچیدہ اور سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اولاد کی تربیت کیسے کی جائے، وہ کون سے امور ہیں جنہیں اپنا کر اولاد کی بہتر تربیت ہو سکتی ہے۔ جہاں تک تربیت کی بات ہے تو لفظ تربیت کا سنتے ہی ذہن میں کسی خاندان کے ذمہ دار فرد یا سرپرست کا خاکہ گھومنے لگتا ہے اور پھر آنکھ جس بچے کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہی ہوتی ہے تو اس میں بچے کا کردار کم اور سرپرست کا کردار زیادہ نظر آتا ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ”تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔” تو ثابت یہ ہوا کہ بچہ بچپن میں صاف شفاف کردار کا مالک ہوتا ہے اور جس ماحول میں یہ بچہ پرورش پاتا ہے تو وہی چیزیں اس کے دل و دماغ پر نقش ہوتی رہتی ہیں۔ والدین جو اپنے بچوں کو بڑے لاڈ پیار سے پال رہے ہوتے ہیں نادانستگی میں ایسے نامناسب اور غیرمہذب حرکات کر جاتے ہیں جس سے بچے کی اخلاقیات متاثر ہوتی ہیں اور بچہ بھی وہی کچھ سیکھتا ہے جو وہ دیکھتا ہے۔

مجھے بڑے افسوس کے ساتھ پٹھان معاشرے کی عکاسی کرنا پڑ رہی ہے اور بہت دلخراش گفتگو کی طرف بڑھنا پڑ رہا ہے کہ پٹھان گھرانوں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ناخواندہ مائیں کیسے بچوں کے سامنے گالی گلوچ اور نازیبا الفاظ کا استعمال کر کے بچے کی شخصیت برباد کر رہی ہوتی ہیں۔ بچپن کا دور ہی بگڑنے اور سنورنے کا ہوتا ہے۔ ایک نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو بچوں کی تربیت سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہوتی ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ پٹھان بچے گلی کوچوں میں کھیل کھیل میں ایسی گندی گالیاں منہ سے اگل رہے ہوتے ہیں جنہیں وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔

یہاں بات آتی ہے گھر کے ماحول کی، گھر کا ماحول کس سے بنتا ہے؟ ماں سے، باپ سے! اگر یہی رشتے بات بات پر لڑ جھگڑ رہے ہوں، گالی گلوچ کرتے رہتے ہوں تو آپ کا کیا خیال ہے بچہ کیا سیکھے گا؟

ماں بچے کو گود میں ڈال کر دوسرے بچوں پے چلا رہی ہوتی ہے، باپ بچوں کے سامنے بیوی پے دھاڑ رہا ہوتا ہے، گالیاں دے رہا ہوتا ہے اور ماں بھی غصے میں آ کر بچے کو تھپڑ دے کر گالی دے رہی ہوتی ہیں اس وقت بچے کہ ذہں میں یہ سوال ضرور آتا ہے کہ ماں مجھے گالیاں دے کر گالیاں دینے پر مار رہی ہیں۔ ہر وقت کا مارنا، بار بار مارنا بچے کو ڈھیٹ بنا دیتا ہے، پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ بچے کو جتنا بھی مار لو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہی بچہ گالیاں بھی دیتا ہے، چھینا جھپٹی بھی کرتا ہے اور بچوں کہ ساتھ لڑتا جگھڑتا بھی ہے۔

پہلے زمانے میں مائیں بچوں کو گود میں بٹھا کر قرآن کی تلاوت کرتی تھیں، شوہر سے دھیمے لہجے میں بات کرتی تھیں، گالیاں دینا کفر سمجھتی تھیں اور شرم و حیا کا پیکر ہوا کرتی تھیں۔ اور پھر انہی ماؤں کے بچے شیخ سعدیِ، محمد بن قاسم، عبدالقادر جیلانی، سلطان غزنوی اور صلاح الدین ایوبی ہوا کرتے تھے۔

میں سمجھتی ہوں آج والدین کو تربیت کی ضرورت ہے، والدین خود کو تبدیل کریں، اپنا رویہ تبدیل کریں زندگی سے جھوٹ ۔بےایمانی دھوکہ غصہ گالیاں اور لڑائی جھگڑے نکال دیں اور پھر سپنے بچوں کی تربیت کریں تو وہ بچہ معاشرے کا بھترین فرد بن کر ابھرے گا۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button