بلاگز

لباس بھی طریقہ اظہار، تو پھر حجاب سے مسئلہ کیوں؟

لاریب اطہر

آزادی اظہارِ رائے انسان کا بنیادی حق ہے۔ انسان اپنے خیالات کا اظہار صرف زبان کے ذریعے نہیں کرتا بلکہ انسان کا لباس، اُس کا رہن سہن کا طریقہ، اُس کا معاشرتی برتاؤ اور احساس ذمہ داری سب اظہار کے طریقے ہیں۔

لباس انسان کی سوچ اور نظریات کی عکاسی کرتا ہے، اور ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق لباس کا انتخاب کرے۔ کوئی کسی کو اپنی مرضی کا لباس پہننے پر مجبور نہیں کر سکتا نہ ہی کسی کو اپنی مرضی کا لباس پہننے سے روک سکتا ہے۔

یہ منافقت ہے کہ آپ خود تو اپنی سوچ کے مطابق لباس کا انتخاب کرنے کو اپنا حق سمجھیں اور پہنیں لیکن کوئی دوسرا اگر اپنے مذہب کے احترام میں کوئی لباس منتخب کرے تو آپ اُس کا مذاق اڑائیں اور تنقید کریں۔

آزادی اظہار رائے یہ نہیں کہتی کہ آپ دوسروں کے پہناوے پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھیں لیکن اگر کوئی دوسرا آپ کی معاشرتی حدود سے متجاوز پہناوے پر بات کرے تو کہہ دیں کہ کسی کو آپ کے لباس کے متعلق بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔

ایک دہائی قبل، فرانسیسی حکومت نے ایک قانون منظور کرایا تھا جس کے تحت مسلم خواتین پر حجاب یا نقاب (لباس کا ایک جزو جس سے چہرے کا احاطہ ہوتا ہے۔ پہننے پر پابندی عائد کی گئی، ستم ظریفی یہ ہے کہ اگست 2020 میں، فرانسیسی حکام نے لوگوں کے لیے ماسک کا پہننا لازمی قرار دے دیا، کوویڈ 19 کی وجہ سے ہی سہی لیکن چہرے کے اُسی حصے کو ڈھانپنا ضروری قرار دیا گیا جو کہ نقاب ڈھانپتا ہے، مگر نقاب ابھی بھی ممنوع ہے۔ سوال یہ ہے کہ حجاب پر پابندی عائد کرتے ہوئے فرانس چہرہ ڈھانپنے کا اطلاق کیسے کر سکتا ہے؟

حال ہی میں یورپی یونین کی اعلی ترین عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ کاروباری اداروں میں اگر مسلمان خواتین کے نقاب پہننے سے اختلافات جنم لیتے ہیں تو وہ ادارے اپنے ملازمین کے حجاب پہننے پر پابندی لگا سکتے ہیں۔

اس سے جو اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس فیصلے کا اصل مقصد کیا ہے؟ بال یا چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال ہونے والا لباس کا ایک ٹکڑا، جو کیتھولک راہباؤں کے اور آرتھوڈوکس یہودی خواتین کے پردے جیسا ہی ہے، کس طرح یورپ کے لئے اتنی تشویش کا باعث بن سکتا ہے کہ اس طرح کے انتہائی سخت قوانین کو نافذ کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے؟

یہ دوغلا پن ہے کہ آپ اپنی مرضی کے کپڑے کا انتخاب کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی اور (خاص طور پر مسلمان خواتین) اپنے مذہب کی حدود میں لباس کا انتخاب کریں تو آپ اس کا مذاق اڑا رہے ہیں اور تنقید بھی کر رہے ہیں۔

ایک طرف آپ آزادی اظہار رائے کا پرچار کرتے ہیں، اور دوسری طرف دوسروں سے اُن کی آزادی چھین رہے ہیں۔ مسیحی خواتین یا یہودی خواتین پر ایسی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتیں؟ مسلمان خواتین کو لباس کے انتخاب کی آزادی کیوں نہیں دی جاتی؟

اگر کسی مُسلم اکثریتی علاقے میں کوئی شدت پسند گروپ زبردستی نقاب کا نفاذ کرتا ہے تو اُسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہا جاتا ہے، لیکن اگر کسی کا نقاب زبردستی اتروایا جائے تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

اگر کوئی کسی مغربی یا لبرل کو نامناسب لباس سے روکتا ہے تو اسے شخصی آزادی پر حملے کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن مُسلم خواتین کے لباس پر تنقید ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے۔

اسلامو فوبیا کی بنیاد پر انسانی حقوق کے علبرداروں کے دوہرے معیار کب تک جاری رہیں گے؟ کب تک مسلمانوں کے ساتھ ایسی ناانصافیاں روا رکھی جائیں گی؟

یورپ کے اس دوہرے معیار سے ایسا لگتا ہے کہ وہاں مسلم خواتین کو اقلیتی طبقے کے طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس صورتحال کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور اسلامو فوبیا کے نتیجے میں رونما ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔

نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button