افغانستان میں جنگ مسئلے کا حل نہیں: امریکی صدر جوبائیڈن
افغان جنگ کی نگزانی کرنے والے چوتھے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج اُتارنے کا مقصد ملک بنانا نہیں بلکہ امریکہ کے خلاف پرتشدد واقعات کو روکنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی آپریشن رواں سال کے 31 اگست تک اختتام پذیر ہوجائے گا۔
بائیڈن نے یہ خطاب پہلی بار باضابطہ طور پر ایک ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب افغانستان میں پُرتشدد واقعات بڑھ رہے ہیں اور نیٹو افواج کی انخلا سے افغانستان میں طالبان نے متعدد علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ میں نائن الیون واقعات کے بعد افغانستان میں غیرملکی افواج کو اُتارا گیا تھا اور 20 سال تک افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑی۔
جوبائیڈن نے امریکی صدارت کی کرُسی سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ امسال 11 ستمبر تک امریکی فوجیوں کو واپس اپنے ملک بُلا لیا جائے گا اور یہ فیصلہ اسی بنیاد پر ہوا جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا کہ مئی 2021 تک تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلالیا جائے گا لیکن جوبائیڈن نے اس میں تاخیر کی۔
بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اپنی تقریر میں کہا کہ ‘افغانستان میں مزید لڑائی اس مسئلے کا حل نہیں’۔ جب رپورٹرز نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ امریکی فوجیوں کی واپسی پر یہ کہیں گے کہ ‘مشن کامیاب رہا؟’ تو انہوں نے جواب تھا کہ "نہیں، مشن کامیاب نہیں ہوا۔ مشن تب کامیاب ہوگیا تھا کہ جب ہم نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا اور اب دنیا میں دہشتگردی پھیلنے کا سلسلہ رُک گیا”۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت، القاعدہ کا خاتمہ اور امریکہ پر مزید حملوں کو روکنا تھا۔
کہتے ہیں "ہم افغانستان ملک بنانے نہیں گئے تھے یہ افغانستان کے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپے ملک کیسے چلاتے ہیں یہ اُنکا اپنا فیصلہ ہے”۔ امریکی صدر نے واضح کیا "وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو جنگ کے لیے افغانستان نہیں بھیجیں گے”۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ اُن کا طالبان پر اعتماد نہیں مگر ان کے خیال میں افغان فوج کی صلاحیت قابل اعتماد ہے۔ انہوں نے ایسی اطلاعات کی تردید کی کہ افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیکورٹی فورسسز کے تین لاکھ جوان ہے اور طالبان کے ساتھ 75 ہزار جنگجو ہیں، انکا موازنہ ممکن نہیں۔
اطلاعات کے مطابق امریکی فوج کے انخلا کے بعد بھی امریکی سفارتخانے، کابل ایئرپورٹ اور اہم حکومتی عمارتوں کی حفاظت کیلئے 600 سے 1000 تک فوجی موجود رہیں گے۔
جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والے مترجموں، خواتین صحافیوں اور سول سوسائٹی کے افراد کو امریکی شہریت دی جائی گی۔ جن کی تعداد ڈھائی ہزار تک بتائی گئی ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق 2001 سے لے کر اب تک 450 سے زیادہ برطانوی فوجی طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔
افغان جنگ کے شروع دنوں میں نیٹو کے 1 لاکھ 30 ہزار فوجی افغانستان میں اُتارے گئے تھے جن کا تعلق دنیا بھر کے 50 مختلف ممالک سے تھا۔