ہر تعلیم یافتہ شخص تہذیب یافتہ نہیں ہوتا
سلمی جہانگیر
ایک خاتون سوشل ایکٹیوسٹ کی کچھ دیر پہلے کی گئی تقریر کو موضوع گفتگو بنا کر اپنی دوست سائرہ سے اس کے مختلف پہلوؤں پر باتیں کر رہی تھی کہ اچانک ہال میں پیالیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں بلند ہوئیں، معاشرے کی ترقی کا انحصار اس میں رہنے والے شہریوں کے مثبت کردار ادا کرنے پر منحصر ہے اور کوئی بھی معاشرہ ترقی کی دوڑ میں تب تک پیچھے رہتا ہے جب تک اس میں رہنے والے اپنا کردار نا نبھائیں۔
کہا جاتا ہے کہ تعلیم ملک اور قوم کی ترقی کی ضامن ہے، تعلیم کے ساتھ سماجی روابط قائم کرنا بھی معاشرے کے ہر فرد کا فریضہ سمجھا جاتا ہے۔
چند دن پہلے ایک تقریب میں کچھ خواتین کو دیکھا جو چائے پینے کے دوران ایسی عجیب حرکتیں کر رہی تھیں اور ایسے لگ رہا تھا جیسے انہوں نے پورے ایک سال سے چائے کو چکھا تک نہیں اور چائے کے ساتھ رکھے گئے لوازمات پر ایسے ٹوٹ پڑیں کہ ہال کا ہر کونا پیالیوں کے ٹوٹنے کی آوازوں سے گونج اٹھا۔
اس تقریب میں تقریباً سو کے قریب خواتین شامل تھیں اور انتظام سب کے لئے یکساں تھا لیکن چند خواتین کے اس رویے سے ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ پہلی دفعہ کسی ایسی تقریب میں شامل ہوئی ہیں اور اس کے بعد کوئی دوسرا موقع ان کو نہیں ملے گا۔
یہ حالات کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کیوں سب کچھ ہونے کے بوجود ایسا کرتی ہیں؟
اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی روابط سے دوری ہے یعنی یہ لوگ سوشلائزڈ نہیں ہیں، تعلیم کے ساتھ معاشرے میں رہنے کے لئے اس میں رہنے والوں سے میل جول رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
اگر ہم ماضی سے شروع کریں تو کسی زمانے میں عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کی تعلیم کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ لڑکے اور لڑکیاں پڑھ لکھ کر پیار اور محبت کے کھیل کھیلتے ہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا، بالغ ہوتے ہی لڑکیوں کی شادیاں کروا دی جاتیں اور یہی سلوک لڑکوں سے بھی کیا جاتا۔ اگر ہم اب بھی اپنے ارد گرد دیکھیں تو ایسے بہت سے گھرانے ہیں جہاں آج بھی یہ رواج عام ہے جہاں نہ صرف لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے بلکہ لڑکوں کو بھی چھوٹی عمر سے کام دھندے پر لگا دیا جاتا ہے تو جو شعور تعلیم دیتی ہے اس سے وہ محروم رہ جاتے ہیں۔
اسی طرح وہ معاشرے میں رہنے والوں کے ساتھ نہیں چل سکتے جس طرح تعلیم یافتہ لوگ چلتے ہیں لیکن تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب یافتہ ہونا بھی بہت ضروری ہے اور اگر یہاں ہم یہ کہیں کہ ہر تعلیم یافتہ شخص تہذیب یافتہ نہیں ہوتا تو غلط نہیں ہو گا اور اس کے لئے ہم ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں سماجی رابطوں کو بنانا بہت ضروری ہے۔
تعلیم سے شعور پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ رابطوں کا قیام دنیا کے ساتھ چلنے کا سلیقہ بتاتا ہے اور کسی بھی تقریب میں اگر شرکت کرنے کا سلیقہ نا آتا ہو تو پھر یہی ہوتا ہے۔
میں نے شادی کی ایسی تقاریب دیکھی ہیں جہاں لوگ کھانا کھانے سے پہلے شاپرز میں چاول ڈال کر لے جاتے ہیں اور یہ خیال بھی نہیں رکھتے کہ باقی رہ جانے والے مہمانوں کا کیا ہو گا، کیا ان کے لئے کچھ بچ گیا ہے کہ نہیں؟
دوست کی بھتیجی کے عقیقہ میں چند عورتیں بار بار دوبارہ سالن مانگ رہی تھیں جب دیکھا تو اپنے ساتھ لائے ہوئے برتنوں میں جمع کر رہی تھیں کہ اپنے ساتھ لے جائیں، کچھ خواتین تعلیم یافتہ دکھائی دے رہی تھیں۔
ہر انسان کے لیے تہذیب یافتہ ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ میں نے بہت سے پڑھے لکھے جاہلوں کو اور بے تعلیم تہذیب یافتہ لوگوں کو دیکھا ہے۔ معاشرے میں رہنے کا شعور ہر کسی کو آتا ہے لیکن رہنے کے طور طریقے یا سلیقے سے بہت سے کم لوگ واقف ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ میل جول بڑھائیں، سماجی رابطوں کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔