”نقاب تو کیا ہے لیکن دستانے تو نہیں پہنے”
انیلہ نایاب
”عورت مختصر لباس پہنے گی تو مرد پر اثر تو ہو گا، وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا جس پر سوشل میڈیا پر کافی بحث جاری ہے، ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے۔
اس بات سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ عورت ذات کی عزت پر ہاتھ اٹھانے والے ان پڑھ یا پسماند لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ بھی ہیں جو پڑھے لکھے ہیں، اعلی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر ایک اسلامی جمہوریہ ملک کے وزیراعظم بھی ہیں۔
ارم، جو بی ایس کی طالبہ ہے، عمران خان کے خواتین کے لباس کو مرد کے بہکاوے کا سبب بتانے پر کہتی ہیں کہ وہ بہت ڈر گئی ہیں کہ شاید اب پاکستان میں کسی خاتون کی عزت محفوظ نہیں ہے، ”خدانخواستہ اگر ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہے تو حکومت اس کو ہی قصوروار ٹھہرائے گی کیونکہ جب ایک وزیراعظم اس طرح کہے تو عام بندے سے کوئی کیا گلہ کر سکتا ہے۔”
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہماری سوچ وہیں کی وہیں ہے۔ دنیا میں بڑی سے بڑی کامیابی کی شروعات بھی ایک اچھی سوچ سے ہوتی ہے، غاروں میں رہنے کے دور سے لے کر ترقی کا موجودہ دور بھی صرف اور صرف انسان کی سوچ کا ہی نتیجہ ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے باوجود کچھ لوگ ایسی لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ یہ بات اب عام ہو گئی ہے کے خود کو نہیں دیکھتے اور دوسروں کی زندگیوں میں خوب تانک جھانک کرتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ منہ پر ہی کہتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ سامنے والے کو اچھا لگے گا يا برا، میرے خیال میں جس کی جیسے سوچ ہوتی ہے ویسے ہی دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے۔ اچھی سوچ کے مالک ہمیشہ سب کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔
ہمارے ارد گرد دیکھا جائے تو ہر طرف حسد او کینہ اور خود غرضی کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے، شاید تعلیم کی کمی ہے يا شعور و آگاہی کا نا ہونا لیکن آج لوگوں کی ایک اکثریت سامنے والے کی دل آزاری کر کے خود تسکین محسوس کرتی ہے اور سامنے والے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر کے اپنے چھوٹے قد کو مزید چھوٹا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور علم و ہنر کی دولت سے مالا مال کیا ہے لیکن افسوس انسان نے ان تمام نعمتوں کو چھوڑ کر حسد اور کینہ کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ ایسی تو ہزاروں، ہزاروں کیا بلکہ لاکھوں باتیں ہیں لیکن صرف ایک موضوع پر بات کرتے ہیں، میری طرح یقیناً ہر دوسری تیسری لڑکی کے ساتھ ایسا ہوتا ہو گا۔
”اچھا تم تو مدرسے سے پڑھی ہو نا؟ تم نقاب کیوں نہیں کرتی؟ تمہارا گناہ تو ہم سے زیادہ ہو گا نا؟ ہم تو بےخبر ہیں اس گناہ سے اور تم با خبر ہو۔” ایسے خیالات و سوالات کافی عرصہ سے سنتی آ رہی ہوں، خود اپنی ایک سہیلی سے ایک دن سننے کو ملا کہ ”نایاب تم تو مدرسے میں زیر تعلیم ہو اس کے باوجود اپنے بھائی کے ساتھ تصویر میں بے نقاب تھی تمہارا گناہ ہم سے دو چند ہو گا کیونکہ ہمیں تو گناہ کا اتنا پتہ نہیں ہے جتنا تمہیں ہے۔” بھلا آج کس کو گناہ کا پتہ نہیں ہو گا۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ گناہ اور ثواب صرف نقاب اور بے نقابی میں ہیں، کچھ لوگوں کا تو یہ کہنا ہے، ”نقاب تو کیا ہے لیکن دستانے تو نہیں پہنے۔”
مسلمان عورتوں کو دوسروں کی نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جو نشانی دی گئی ہے اس کو حجاب کہتے ہیں۔ میں نے حجاب اور نقاب کرنے والی لڑکیوں پر بھی لوگوں کو طنز کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ نقاب والی لڑکیاں زیادہ سوشل نہیں ہوتیں، نقاب کرتی ہیں کیونکہ ان پر گھر کی طرف سے زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔
دوسری جانب نقاب کرنے والی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ گھر والوں کی طرف سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے، وہ اپنی مرضی سے نقاب کرتی ہیں کیونکہ نقاب میں وہ اپنے آپ کو زیادہ پراعتماد اور محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
ضروری نہیں ہے کہ صرف ناخواندہ لوگ یا پھر کسی چھوٹے شہر یا قصبے میں رہنے والے لوگ منفی سوچ رکھتے ہوں گے، میں نے کافی تعلیم یافتہ اور اچھے اور بڑے شہروں میں رہنے والوں کو منفی سوچ رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور ایک اسلامی ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ خاتون کم کپڑے پہنے تو اس سے مرد پر اثرات تو ہوں گے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد کوئی روبوٹ تو نہیں ہے۔
میں وزیر اعظم کی اس بات سے بلکل بھی متفق نہیں ہوں۔ اگر ایک ملک کا وزیر اعظم ایسی سوچ کا مالک ہے تو ہم عوام کی سوچ کو کیسے بدلیں گے؟ اکثر مرد بھی تو شارٹس پہنتے ہیں لیکن آپ میں سے کسی نے یہ نہیں سنا ہو گا اور نہ ہی دیکھا ہو گا کہ کسی خاتون نے اس کے لباس کو طنز کا نشانہ بنایا ہو یا اپنے ہوش و حواس کھو کر کوئی غلط حرکت کی ہو۔ منفی سوچ کا شرف تو صرف مردوں کو حاصل ہے۔
خواتین کے کردار کو ہر جگہ ان کے عمل کے بجائے ظاہری لباس پر زیادہ پرکھا جاتا ہے۔ کردار کی پختگی مرد و خواتین دونوں کے لیے ضروری ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کے لوگ نقاب اور حجاب والی خواتین پر طعنے کستے ہیں تو بے نقاب لڑکیوں کو ان طعنوں کی بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
کیا مرد منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہمیشہ ہی عورتیں کو ہر کام میں قصور ور ٹھہرایا جائے گا؟ مثبت سوچ سے ہی برائیوں پر آسانی سے کنٹرول پایا جا سکتا ہے۔