بلاگز

میں پوچھنا چاہتی ہوں کیا خواجہ سراء انسان نہیں ؟

مریم انم

اس حقیقت کو ہم جھٹلا نہیں سکتے کہ خواجہ سراء بھی ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں جب بھی کسی خاندان میں خواجہ سراء کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے ساتھ نہ صرف ماں باپ ،بہن بھائی بلکہ ارد گرد کے لوگ بھی اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں قبول نہیں کرتے میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا خواجہ سراء انسان نہیں ہے؟

خواجہ سراء  ایسے افراد ہوتے ہیں جن میں کچھ خصوصیات مردوں جبکہ کچھ خصوصیات عورتوں سے مشابہت رکھتی  ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ ان کو عام مرد یا عورت میں شمار نہیں کرتے  بلکہ ان کو خسرے،  ہیجڑے،  اور دیگر ناموں سے پکارتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں بڑی تعداد میں خواجہ سراء موجود ہیں جو معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے ناچ  ،گانے اور ڈانس وغیرہ  میں اپنی زندگیاں  گزارتے ہیں  ان میں سے کچھ خواجہ سرا بھیک مانگ کر اپنا وقت گزارتے ہیں ان خواجہ سراؤں کو معاشرے میں جینے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ ابھی تک ہمارے معاشرے نے انہیں قبول نہیں کیا ہے اگرچہ  ان  میں  بڑی تعداد  ایسی بھی  ہیں جو اپنے صلاحتیوں کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں  تاکہ وہ بھی عام شہریوں  کی طرح  اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔

اگر ان کی معاشی مسائل  کے بارے میں کہا جائے تو  ہمارے معاشرے میں یہ طبقہ انتہائی محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کا کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں ، غیر تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کی تربیت اچھے طریقے سے نہیں ہو پاتی  اور نہ ہی وہ  کسی چیز کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں جس سے وہ اپنی زندگی  بہتر طریقے سے گزار سکے۔

اسی طرح  اگر معاشرتی مسائل کی بات کی جائے تو ہمارے معاشرے  میں اس طبقے کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کیونکہ اگر یہ لوگ باہر  بھی جاتے  ہیں تو لوگ انہیں مختلف طریقوں سے  تنگ کرتے ہیں  ، کبھی انکی کمر کو چھونے  کی کوشش کرتے تو کبھی کسی اور طریقے سے  ان کے جسم پر ہاتھ پھرتے ہیں۔

یہ ہمارے معاشرے کا اصلی چہرے کو ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے خدا کے پیدا کئے گئے بندوں  کیلئے اسی کی زمین پر پھرنا مشکل بنا دیا ہے ، یہ بھی نہیں  بلکہ ہر دوسرے اور تیسرے روز  کچھ بے ضمیر لوگ اس طبقے کی کمائی کو رات کے اندھیرے میں  لوٹ کر ایسے اڑاتے ہیں جیسا کہ یہ انکے باپ داد کی کمائی ہو۔

اگر حکومت کی بات کی جائے  تو اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک پاکستان میں  کوئی بھی حکومت  نے پچھلے 75 سالوں  میں  خواجہ سراؤں کے لئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا  جو قابل تعریف ہو، نہ تو ان کو  ہسپتال میں  اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے علاج و معالجے کے کچھ خاص سہولت اور رعایت موجود ہیں ۔

اس بات کو یقینی بنانے کی  اشد ضرورت ہے کہ حکومتی عہدیداروں سے لیکر پولیس اہلکاروں اور عام عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ ٹرانس جینڈر( خواجہ سراء )  بھی ہماری طرح  کے عام انسان ہیں  اور انکو عام شہریوں کی طرح حقوق دینے چاہیے۔

اگر تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو خواجہ سراؤں کو تعلیم  کے مواقع فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ  تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ  بھی دوسرے شہریوں کی طرح ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ دوسری جانب  عوام میں بھی یہ آگاہی اجاگر کرنے کی اشد ضرورت  ہے  کہ ان کے ساتھ تعصبانہ رویہ نہ رکھا جائے اور نہ ہی  جنس کی بنیاد پر انکو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جائے ، یہ بھی خدا کے پیدا کئے گئے بندے  ہیں انکو   بھی اپنی زندگی جینے کا حق ہیں۔

آپ لوگوں نے خیال کیا ہوگا کہ جب بھی ہمارے سامنے خواجہ سراؤں  کا ذکر ہوتا ہے تو ہمارے ذہنوں میں ناچ، گانے اور ڈانس کرنے والوں  کی تصویر سامنے آتی ہیں لیکن اب یہ سوچ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر ایک طرف حکومت اس لحاظ سے قانون سازی کررہی ہے اور انکی کی حقوق کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف  عوام کو بھی فرسودہ سوچ کو چھوڑ کر ان کو برابر کے شہری تسلیم کرنا چاہیے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button