‘جولاہا کل بھی طعنہ تھا جولاہا آج بھی طعنہ ہے’
رانی عندلیب
پتھرکے دور میں رہنے والے انسان نے جب شعور اور تہذیب کا سفر شروع کیا تو سب سے پہلے اسے جسم کو ڈھانپنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور اسی ضرورت نے انسان کو کانٹوں سے پتوں کو جوڑنے سے لیکر ہاتھ سے کپڑا بنتے ہوئے آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جدید ٹیکسٹائل انڈسٹری تک پہنچا دیا لیکن بدقسمتی سے پختوں معاشرے میں آج بھی کسب گر کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور لوگ انہیں کمتر ثابت کرنے کے لئے ( جولا، نائی ، موچی ) کے ناموں سے پکارتے ہیں جس سے نہ صرف ہمارے ہنرمند احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں بلکہ وہ رفتہ رفتہ اس مقدس پیشہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
تاریخ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو برصغیر میں ہاتھ سے کپڑےبنانے والے کو جولا ہاکہتے تھے جو دستی کھڈی پر قالین، چادریں اور ہر قسم کے کپڑے بناتے ہیں اور انہی کی بنائی ہوئی قالین، چادریں اور کپڑوں کو ہم روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں یوں تو بظاہر ہمیں یہ سب کچھ بہت پسند ہوتے ہیں اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بہترین قسم کی قالین بچھائیں ، بہتر کوالٹی کی چادریں اوڑھ لیں اور بہترین قسم کے کپڑے پہن لے جس سے معاشرے میں ہماری عزت بڑھ جائے اور لوگ ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھیں ۔
آپ نے سن ہوگا کہ جولاہا کے بارے میں بہت غلط محاورے مشہور ہیں جیسا کہ ” جولاہا صبح سے لیکر دوپہر تک کھڈی کرتے ہیں اس لئے دوپہر کے بعد ان کا دماغ کام نہیں کرتا”۔
پختونوں میں بھی قصب گر اور خصوصی طور پر جولاہا کے بارے میں بہت عجیب قسم کی سوچ رکھی جاتی ہیں اور میں نے تو بعض جگہوں میں یہ بھی سنا ہے کہ سو جولاہا ایک عورت کے برابر ہیں یعنی انہیں مردوں میں بھی شمار نہیں کیا جاتا بلکہ ایک عورت کو برابر تصور کیا جاتا ہیں اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ ہمارے ہاں مخلتف ہنر سے وابستہ افراد کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لئے تو ہم آج بھی وہی کھڑے جہاں ستر سال پہلے کھڑے تھے۔
یہ آج کی بات نہیں ہے پرانے زمانے میں بھی جولاہے کو طعنوں کے ذریعے بہت تنگ کیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ نہ تو کوئی میل جول کرتا اور نہ ہی ان سے رشتے کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گلی محلے میں بھی ان کے بچوں کو طعنے ملتے تھے جس کی وجہ سے ان کے بچے احساس کمتری کا شکار ہوکر تعلیم و تربیت میں بھی دیگر بچوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے تھے ۔
اچھا جی ! اگر میں اپنے آبائی علاقے چارسدہ کی بات کروں تو آج بھی وہاں پر بہت سے جولاہے اپنے فن سے وابستہ ہے اور کیونکہ نہ ہو آج سے کئی سال پہلے اسی سر زمین میں پیدا ہونے والے عدم تشدد فلسفہ کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے اس وقت میں اپنے پیروں کاروں کو خمتا پہنے کی تاکید کی تاکہ اس مقامی صعت کو فروغ مل سکے۔
اس حوالے باچا خان بابا کی زندگی پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر سہیل اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں ” باچا خان کا تعلق چارسدہ کے امیر گھرانے سے تھا لیکن جب ایک سازش کے تحت پختوں کسب گر اور ان کے ہنر کو نیچے دیکھانے کے لئے مخلتف قسم طعنے مشہور کئے گئے تو باچا خان نے خود چارسدہ کے بازار میں جولاہے کا کام شروع کیا جس کا مقصد عوام کو یہ دیکھا نا تھا کہ وہ کوئی بھی پیشہ چھوٹا یا کمتر نہیں ہوتا”
دوسری جانب پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کی پروفیسر روبینہ شاہین کا جولاہے کے بارے میں خیال ہے کہ قصب گر سے نفرت کرنا ہمیں انگریزوں نے سکھایا ہے جسکا مقصد اس خطے کے عوام کو ہنر سے دور رکھنا تھا۔ ان کے بقول ہمارے ہاں جولاہے جو کپڑا تیار کرتے ہیں وہ بے حد خوبصورت اور ملائم ہوتھا ہے کہ انگوٹھی کے ہول سے پورا تان گزر جاتا ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ پیشہ کسی کا ذات نہیں ہوتا لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ انہیں یہ نام دیتے ہیں اور کسی کو جولاہے، نائی اور دھوبی کے ناموں سے طنعوں کے طور پر بلاتے ہیں اور اسی طرح ان ہنرمندوں کے انگوٹھے کاٹ لیتے ہیں جس سے نہ صرف ہمارا بلکہ اس خطے کا بہت نقصان ہوتا ہے۔