ماں کورونا پازیٹو ہو تو بچے کو چھاتی کا دودھ پلائے یا نہیں؟
رانی عندلیب
بچے گھر کی رونق اور آنگن میں مہکتے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں ، جس گھر کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے وہ گھر ایسے باغ کی مثل ہے جس گھر میں کبھی بہار نہ آئی ہو وہ گھر بچوں کے بغیر بے رونق او ر خوشیوں سے خالی رہتا ہے۔تاہم کورونا وائرس نے جہاں بڑوں کے دل و دماغ میں ایک خوف رکھا ہے تو وہاں بچے بھی یہ جان چکے ہیں کہ یہ وائرس انہیں بھی متاثر کرسکتا ہیں۔یہ خوف بلکل حقیقی ہے جس سے کوئی فرار نہیں جبکہ ماہرین کہتے ہیں کہ اس وائرس سے چٹکار پانے میں وقت لگ سکتا ہے۔ یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ والدین ، خصوصی طور پر کام کرنے والے والدین کا ہے کہ وہ کس طرح بچوں کو سمجھائیں کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہے اور اس سے کیسے بچنا چاہیے۔
اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کی تیسری لہر شدید تر ہوتی جارہی ہے جس سے بچے بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔یہ بچے سب سے زیادہ پنجاب اور اسلام آباد میں متاثر ہورہے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں ابھی تک کورونا وائرس سے بچوں کی متاثر ہونے کی خبر سامنے نہیں آئی۔
پشاور کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتا ل کے ڈاکٹر امیر محمد سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اب تک سامنے آنے والی معلومات کے مطابق لاہو ر ، کراچی اور اسلام آباد میں 12 فیصد بچے اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں تاہم کورونا وائرس کی تیسری لہر بھی پہلی دو لہروں کی طرح خطرناک ہے اور اس کے کیسز رپورٹ ہونے میں کوئی کمی بیشی نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بچوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کورونا کی پہلی لہر میں والدین کا دھیان بچوں کی طرف نہیں تھا لیکن جس طرح ملک میں بچوں کے کیسز رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں ہر کسی کو اپنے بچوں کی فکر ہونے لگی ہیں۔
ڈاکٹر امیر کے مطابق ایل آر یچ میں بھی بچوں کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر کیسز مشتبہ ہوتے ہیں ، مشتبہ وہ کیسز ہوتے ہیں مثال کے طور پر اگر بچے کی پیدائش سے پہلے ان کے والدین میں کسی کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو ہو تو ان کے بچے میں کورونا کے اثرات پائے جاتے ہیں یا اگر کسی محلہ میں کسی بچے کی کھانسی ، بخار یا پیٹ خراب ہو تو اسی صورت میں بھی ایک بچے سے دوسرے بچے کو وائرس منتقل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اس لیے ان کیسز کو مشتبہ کسیز میں ڈال دیا جاتا ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچوں کے ٹیسٹ بھی بڑوں کی طرح ہوتے ہیں اور انکے بھی پی سی آر یا سکرینگ کروائے جاتے ہیں جبکہ سکرینگ ٹیسٹ کے ذریعے ڈاکٹر کو پتہ چلتا ہے کہ آیا بچے کا پی سی آر کرے یا نہیں اگر بچہ زیادہ سیریس ہو تو سکرینگ ٹیسٹ سے بھی پہلے پی سی آر ٹیسٹ کیا جاتا ہیں۔
بچے کی حفاظت کس طرح کی جائے؟
اس حوالے سے ڈاکٹر امیر محمد کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر بچے کی حفاظت کے لئے بھی وہی چیزیں استعمال کرنی چاہیے جو بڑوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں مثال کے طور پر بڑے بھی ماسک پہنتے ہیں ،ہینڈ سیٹائزر استعمال کرتے ہیں ، گلوز پہنتے ہیں، بار بار ہاتھ دھوئیں اور کسی سے نہیں ملتے اس طرح یہ سب بچوں کو بھی کرنا ہوگا۔
کیا مائیں ان بچوں کو دودھ پلائے جو نوزائیدہ ہیں اس سوال کے جواب میں ڈاکٹرا میر نے بتایا کہ اس میں دو قسم کی مائیں ہیں ایک وہ ماں جس میں کورونا وائرس کے اثرات موجود نہیں ہے اور دوسری وہ جو خود بھی کورونا وائرس کی شکار ہے اور اس کا بچہ بھی کورونا میں مبتلا ہوگیا ہے ، جس ماں کا کورونا ٹیسٹ پہلے سے پازٹیو ہے انہیں چاہیے کہ بچہ کو دودھ پلاتے وقت سرجیکل ماسک، ہنڈ سینائزر اورگلوز کا استعمال ضرور کریں جبکہ وہ ماں جس کو کورونا نہیں ہوا وہ بھی حفاظتی تدابیر پر عمل کریں۔
بچوں میں کورونا وائرس کے علامات کیسے ظاہر ہونگے ؟
ڈاکٹر امیر محمد کے بقول اگر نوزائیدہ بچہ کی کھانسی ہے ، یا اس کی زبان سرخ ہوگئی ہے اور یا منہ کے چھالے ہے تو والدین کو چاہیے کہ وہ بچہ کا ٹیسٹ کروایا اور اس وقت بچہ کو آئسولیٹ کیا جائے کیونکہ جب تک ٹیسٹ کا رزلٹ نہیں والدین یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ بچہ کو اپنے پاس رکھے جبکہ بڑوں کی اور بچوں کی آئسولیٹ میں ایک جیسی ٹرٹمینٹ ہوتی ہیں۔