”لڑکا راضی ہے تو بس یہی کافی ہے، باقی کوئی فرق نہیں پڑتا”
سی جے دوست علی
جی ہاں! قبائلی اضلاع کے گھروں میں گمنام پرندے بھی ہیں جن کو پنجرے میں بند پرندوں کی طرح قید رکھا جاتا ہے۔ یہ پرندے کہیں اور سے نہیں آتے بلکہ یہیں پر پیدا یہیں پر پلی بڑھی ہوتی ہیں اور یہ پرندے کوئی اور نہیں بلکہ قبائلی اضلاع کی خواتین ہیں۔ یقیناً یہ پرندے آج کل کے دور میں مظلوم ترین مخلوق میں سے ہیں۔ خواتین کے مسائل اتنے ہیں کہ مجھے یہ نہیں معلوم شروع کہاں سے کروں۔
بہرحال قبائلی اضلاع میں نو دس سال کی بچی ایک معصوم سا آزاد پرندہ ہوتی ہے جو ہر جگہ گھومتی ہے، گھر کے لیے دکان سے سامان لانے سے لے کر ہر طرح کے کھیلوں میں بچے اور بچیوں کے ساتھ شریک ہوتی ہے لیکن جیسے ہی اس کی عمر نو دس سال تک پہنچ جاتی ہے پھر اس پر پابندیاں لگ جاتی ہیں اور اس کو چاردیواری کے پنجرے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ سکول میں داخل کروانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صرف یہی نہیں بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ اس کے اوپر رسم و رواج لاگو ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک سارا کچھ مرد کی مرضی پر ہونے لگتا ہے خاص کر ایک شادی شدہ عورت کو دوسرے گھر میں جانے کے بعد طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی مرضی کے لباس پر بھی تنقید، چلنے پھرنے کے انداز پر بھی تنقید، باتوں اور لہجے پر بھی تنقید، کھانے پینے کے انداز پر بھی تنقید یہاں تک کہ عورت کو نہ صرف گھر کے کاموں میں ہر لحاظ سے گھر والوں کو مطمئن کرنا ہوتا ہے بلکہ اپنی ذاتی زندگی بھی گھر والوں کی مرضی سے گزارنا ہوتی ہے۔
قبائلی اضلاع کی خواتین کی اہمیت صرف گھر کے کام، اپنے شوہر اور گھر والوں کو خوش رکھنے تک محدود ہوتی ہے جیسے کسی مزدور کو گھر کے کام پر لگا دیا ہو۔ نہ خاتون گھر کے کسی مسئلے پر اپنی رائے دینے کا حق رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی بات کو سنا جاتا ہے بلکہ الٹا برا بھی مانا جاتا ہے۔ خاتون نہ اپنی مرضی کا کھانا بنا سکتی ہے بلکہ کھاتی بھی تب ہے جب پہلے مرد حضرات کھا لیتے ہیں اس کے بعد کچھ بچ گیا تو کھا لیتے ہیں۔
خاتون نہ خود گھر سے باہر جا سکتی ہیں تاکہ اپنی مرضی کی چیزیں خرید سکیں اور نہ ہی شوہر یا گھر کا کوئی اور مرد یہ موقع دیتا ہے کہ اس خاتون کو ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنے ساتھ باہر لے جائے۔ شوہر کا اپنی بیوی کو تفریح کے لیے باہر لے جانا تو بہت دور کی بات ہے اگر کوئی شوہر اپنے ساتھ بیوی کو باہر کسی شہر یا تفریح کے لیے لے بھی جاتا ہے تو پورے گھر میں چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
کسی لڑکی کا مستقبل طے کرنا لڑکی کی مرضی سے نہیں بلکہ والدین کی مرضی سے ہوتا ہے۔ جب والدین اپنے بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہیں تو بیٹی سے نہ مرضی پوچھی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی مرضی شمار میں لی جاتی ہے۔ رشتہ طے کرنے کے لیے یہ کافی ہوتا ہے کہ لڑکا راضی ہے باقی لڑکی ہزار گناہ انکار کرے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سب سے بڑھ کر لڑکی کے رشتے کے لیے "فروخت” کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی کو اتنے روپے میں بیچا گیا۔ جائیداد کے حقوق کی بات کریں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے آپ کسی کے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں۔ گھر کا پیسہ مرد پر ہی خرچ ہوتا ہے اور وراثت میں حق بھی صرف مرد کو ہی دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی عورت وراثت میں حق کا مطالبہ کا کر بھی لیتی ہے تو ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جیسے عورت ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان سارے مظالم کے ہوتے ہوئے بھی مرد حضرات اپنی خواتین کے لیے "جاہل” کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں کہ ہماری خواتین جاہل ہیں لیکن ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کو جہالت میں رکھنا مرد ہی کی جہالت اور خواہش ہوتی ہے۔
پنجرے میں بند پرندے کی آزادی صرف اس وقت مکمن ہوتی ہے جب گھر کے مرد حضرات جہالت سے نکل آتے ہیں۔
نوٹ: ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔