افغانستانعوام کی آواز

افغانستان: تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے روایتی لباس لازم، ہدایات جاری

افغانستان میں حالیہ دنوں ایک اہم تبدیلی سامنے آئی ہے جہاں سرکاری سکولوں کے طلبہ کے لیے نیا یونیفارم متعارف کرایا گیا ہے، جو روایتی افغان لباس پر مشتمل ہے۔ عیدالفطر کے بعد سے، سرکاری سکولوں کے لڑکوں کو سفید لباس کے ساتھ پگڑی یا ٹوپی پہننا لازم قرار دیا گیا ہے، جس نے پہلے سے موجود سکول یونیفارم کی جگہ لے لی ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ یونیفارم تعلیمی اداروں پر لاگو ہوگا، جو عمومی طور پر شلوار قمیض ہو گی لیکن قمیض نصف ساق (ٹخنے سے گھٹنے تک) تک ہونی چاہیئے، اسی طرح نئی ہدایات کے مطابق کپڑے ایسے نہیں ہونے چاہیئے، جن میں بدن کے اعضا نمایاں نظر آئیں جبکہ شلوار قمیض کے ساتھ پگڑی یا ٹوپی پہننا لازمی ہوگا۔

طالب علم بلال نے بتایا، "اساتذہ نے کہا ہے کہ اگر ہم نیا یونیفارم نہ پہنیں تو سزا کے طور پر انکو مارا جائے گا۔” اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ضابطے کو سختی سے نافذ کیا جا رہا ہے، جس سے طلبہ پر نفسیاتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

دوسری جانب، نجی سکولوں کے طلبہ فی الحال نیلی پینٹ اور قمیص پر مشتمل پرانا یونیفارم ہی استعمال کر رہے ہیں، تاہم وہاں بھی تبدیلی کی لہر پہنچ چکی ہے۔ احمد نامی طالبعلم نے بتایا کہ ان کے اسکول میں بھی نیا یونیفارم متعارف ہو رہا ہے، جو نیلے رنگ کے لباس پر مشتمل ہوگا تاکہ سکول کے رنگوں کی نمائندگی ہو سکے۔

یہ تبدیلی معاشرے میں مختلف آراء کو جنم دے رہی ہے۔ بعض افراد اسے ثقافتی شناخت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ دیگر افراد اس بات پر فکرمند ہیں کہ روایتی لباس عام شہریوں اور طلبہ کے درمیان فرق کو مٹا دے گا، کیونکہ سفید لمبے کپڑے اور پگڑیاں افغان معاشرے میں عام طور پر استعمال ہوتی ہیں۔

کابل کے ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ فیصلہ اعلیٰ حکام کی جانب سے آیا ہے۔ ان کے مطابق، "ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ جدید لباس میں آنے والے طلبہ کو کلاس میں نہ بیٹھنے دیا جائے۔ یہ ثقافت اور نظم و ضبط کا معاملہ ہے۔”

تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی طلبہ کی انفرادیت، خود اظہار اور انتخاب کے حق کو محدود کر سکتی ہے۔ سختی سے نفاذ کی خبریں والدین اور ماہرین تعلیم میں تشویش پیدا کر رہی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تعلیمی اداروں کا مقصد طلبہ کی علمی ترقی ہونی چاہیئے، نہ کہ مخصوص ثقافتی اقدار کا زبردستی نفاذ۔

سکول یونیفارم میں اس تبدیلی نے افغانستان میں تعلیم اور ثقافت کے توازن پر ایک وسیع تر بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک جانب روایت اور شناخت کی واپسی کی بات ہو رہی ہے، تو دوسری جانب انفرادی آزادی اور اظہار پر پابندیوں کے خدشات بھی موجود ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button