افغانستانعوام کی آواز

"واپسی کے اخراجات نے ہمیں مزید بےبس کر دیا ہے”، افغان باشندے

خادم خان آفریدی

یکم اپریل سے اب تک 22,530 افغان مہاجرین کو طورخم کے راستے افغانستان واپس بھیج دیا گیا، جن میں 483 خاندان اور 5,829 افراد شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں اکثریت افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور غیر قانونی مہاجرین کی تھی، جبکہ پروف آف رجسٹریشن رکھنے والے نہ ہونے کے برابر تھے۔

لنڈی کوتل ہولڈنگ کیمپ اور طورخم میں بڑی تعداد میں افغان خاندان موجود ہیں، جہاں انٹری کے بعد مکمل چیکنگ کے بعد انہیں بارڈر کے پار منتقل کیا جا رہا ہے۔2241 افغان مہاجرین افغانستان ڈی پورٹ ہوئے، جن میں 466 مرد، 393 خواتین جبکہ 1382 بچے شامل تھے۔

مہاجرین نے ٹی این این سے گفتگو میں شکایات کے انبار لگا دیئے۔ سید محمد نامی افغان باشندے نے بتایا کہ پنجاب میں پشتو بولنے والوں کو بلاوجہ گرفتار کرکے تھانوں میں بند کیا جاتا ہے، اور پھر کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں خواتین اور بچے الگ، جبکہ مرد الگ کیمپوں میں ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 55 سال پاکستان میں گزارے، لیکن اب سب کچھ چھوڑ کر جانا پڑ رہا ہے۔ ٹرک کا کرایہ طورخم تک ڈیڑھ لاکھ جبکہ افغانستان کیمپ تک تین لاکھ روپے بتایا جا رہا ہے، جسے مہاجرین نے سراسر زیادتی قرار دیا۔

عبدالصبور اور عبداللہ جیسے افغان باشندے، جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی، اور جن کے والدین یہاں دفن ہیں، خود کو بے گھر محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے افغانستان جا کر کہاں جائیں گے یا کیا کریں گے، کیونکہ ان کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔

بعض مہاجرین نے وطن واپسی پر خوشی کا اظہار بھی کیا کہ وہ اپنے ملک جا کر روزگار شروع کریں گے اور وطن کو آباد کریں گے، لیکن اکثر لوگوں کے چہروں پر بے یقینی، مایوسی اور غیریقینی مستقبل کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button