خواجہ سرا بچوں کے لیے ایک ماں کی جدوجہد
زرغونہ
جہاں معاشرتی اقدار اکثر محبت اور قبولیت کی حدود طے کرتے ہیں، وہی افغانی خاتون عظمہ طاقت اور حوصلے کی علامت بن کر سامنے آئی ہیں۔ دس بچوں کی ماں، عظمہ کی زندگی نے اُس وقت ایک نیا موڑ لیا جب اُن کے دو بچوں کو خواجہ سرا شناخت کیا گیا۔ ایسے قدامت پسند معاشرے میں جہاں اس طرح کی حقیقتوں کو اکثر مسترد کیا جاتا ہے، عظمہ نے اپنے بچوں کا مکمل ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور معاشرتی رسم و رواج کو چیلنج کیا۔
"میں انہیں لڑکیوں کے کپڑے پہناتی تھی،” عظمہ نے بتایا۔ "لیکن کچھ وقت بعد ایک ہمسایہ نے نشاندہی کی کہ وہ لڑکے ہیں۔ تب ہم نے انہیں ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا، جہاں ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ وہ خواجہ سرا ہیں۔” یہ انکشاف، جو چیلنجنگ تھا، عظمہ کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکا۔ اس کی بجائے،عظمہ نے اپنے بچوں کو معاشرتی سختیوں سے بچانے کے لئے اُن کے عزم کو مزید مضبوط کر دیا۔
اُن کے بچے، جو اب 18 سال کے ہو چکے ہیں، دیگر بچوں کی طرح اسکول جا رہے تھے۔ بدقسمتی سے، معاشرتی ظلم نے جلد ہی اپنے آثار دکھا دیئے۔ ساتھی طلبہ کی مسلسل بدسلوکی نے اسکول کے ماحول کو ناقابلِ برداشت بنا دیا۔ آخرکار،عظمہ کو اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے اسکول سے نکالنا پڑا۔ "انہیں مسلسل تنگ کیا جاتا تھا، اور میں ان کو اس طرح تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی تھی،” اُنہوں نے کہا۔
اب دونوں بچے ایک جوس کی دکان پر کام کر رہے ہیں اور خاندان کی مالی ضروریات میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ اتنی مشکلات کے باوجود، عظمہ انہیں رات کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی، یہ سمجھتے ہوئے کہ ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں خواجہ سرا افراد کی قبولیت نایاب ہے، وہ کتنے کمزور ہیں۔ ان کی چوکسی اور لگن ایک ایسی ماں کی محبت کو اجاگر کرتی ہے جو اپنے بچوں کو اُس دنیا میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتی جو اکثر انہیں سمجھنے سے انکار کرتی ہے۔
مجیب الرحمان، نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میں اپنی حالت کو قبول کرتا ہوں اور اپنی ماں سے محبت کرتا ہوں کہ اُنہوں نے ہمیں اس معاشرے میں قبول کیا اور ہمارا ساتھ دیا۔ میں اسکول جا رہا تھا، لیکن بدسلوکی کی وجہ سے میری ماں کو مجھے اسکول سے نکالنا پڑا، ہم افغانستان سے پشاور چلے آئے، اس اُمید پر کہ یہاں کے لوگ ہمیں زیادہ سمجھیں گے۔ لیکن بدسلوکی ختم نہ ہوئی، ویسی کی ویسی ہی رہی۔”
ان مشکلات کے باوجود، عظمہ اور اُن کے بچے طبی علاج کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پشاور کے کوہاٹی ہسپتال کا دورہ کیا ہے، لیکن علاج کے اخراجات اُن کی استطاعت سے بہت زیادہ ہیں۔ "کئی ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ علاج بیرونِ ملک بہتر ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں،” مجیب نے وضاحت کی۔
عظمہ کی کہانی صرف ایک ماں کی محبت کی نہیں، بلکہ اُس غیر معمولی جرات کی بھی ہے جو معاشرتی اصولوں کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے درکار ہوتی ہے، خاص طور پر افغانستان جیسے ملک میں، جہاں خواجہ سرا ہونا اکثر بدقسمتی سمجھا جاتا ہے۔ عظمہ ، آہنی عورت، نے شرمندگی اور مستردگی کی بجائے محبت اور قبولیت کا انتخاب کیا، اور ان لوگوں کے لیے امید کی علامت بن گئیں جو ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
عظمہ کی کہانی غیر مشروط محبت کی اہمیت کی یاد دلاتی ہے۔ اپنے بچوں کے لیے اُن کی بے پناہ حمایت، مشکلات کے باوجود، یہ ثابت کرتی ہے کہ محبت ہر حد سے بالاتر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ حدیں جو معاشرہ مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔