افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللّٰہ مجاہد نے کہا ہے کہ صحت، اعلیٰ تعلیم، اسکول، پولیس اور عدلیہ کے شعبوں میں خواتین کی فوری ضرورت ہے، کچھ اداروں میں خواتین نے کام شروع کردیا ہے کچھ میں جلد کام شروع کر دیں گی۔
اپنے بیان میں ذبیح اللّٰہ نے کہا کہ گذشتہ حکومت میں وزارت خواتین امور صرف نام کی وزارت تھی، اسلام میں خواتین کے حقوق کے مطابق جدید ادارہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خواتین امور کی ملازم خواتین کو دیگر سرکاری اداروں میں جگہ دی جائے گی، اس کے علاوہ ذبیح اللہ مجاہد نے خواتین کی رہ جانے والی تنخواہیں بھی ادا کرنے کا اعلان کیا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ طالبان نے خواتین کی وزارت کو وزارتِ اخلاقیات میں تبدیل کر دیا ہے۔
کابینہ میں توسیع، پنج شیر کے تاجر کو وزارت تجارت مل گئی
دوسری جانب افغانستان کی نئی عبوری کابینہ میں توسیع کر دی گئی۔ پنج شیر کے تاجرحاجی نورالدین عزیزی کو عبوری وزیر تجارت مقرر کیا گیا ہے۔
غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کی نئی حکومت میں تاجروں کو خصوصی طورپر کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے، بغلان کے تاجر حاجی محمد بشیر کو نائب وزیرتجارت جبکہ سرپل کے تاجر حاجی محمد عظیم سلطان زادہ کو نائب وزیر تجارت دوئم تعینات کیا گیا ہے، حاجی گل محمد نائب وزیر سرحدی امور اور انجنیئر نجیب اللہ وزیر برائے ایٹمی توانائی ہوں گے، ڈاکٹر لطف اللہ خیر خواہ کو وزارت اعلیٰ تعلیم کا معاو ن مقرر کیا گیا ہے جبکہ حاجی غلام غوث قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے نائب سربراہ ہوں گے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 7 ستمبر کو کابینہ کا اعلان کیا تھااب اس میں توسیع کی گئی ہے۔
برطانوی فورسز کے 250 سے زائد افغان ترجمانوں کا ڈیٹا لیک
ادھر برطانوی فورسز کے لیی کام کرنے والے سیکڑوں افغان ترجمانوں کا ڈیٹا لیک ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، 250 سے زائد افغان ترجمانوں کی معلومات چوری ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے، لیک ہونے والی معلومات میں افغان ترجمانوں کے ای میل ایڈریس اور تصاویر بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب برطانوی وزیر دفاع بین ویلیس نے ترجمانوں کا ڈیٹا لیک ہونے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر دفاع بین ویلیس کی ہدایت پر ان افغان ترجمانوں کے ڈیٹا لیک ہونے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جنھوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک چھوڑنے کے خواہاں برطانوی فوجیوں کے لیے کام کیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق معلومات لیک ہونے کے متاثرہ افغان ترجمانوں کے ای میل ایڈریسز کو غلطی سے برطانوی وزیر دفاع کے ای میل ایڈریس پر کاپی کیا گیا ہے جس کے بعد تمام وصول کنندگان کو ان کے نام اور کچھ تصاویر دیکھنے کی اجازت ملی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 250 سے زائد افراد برطانیہ منتقل ہونے کے خواہاں ہیں جن میں سے اکثریت روپوش ہے۔