بدلون

”ویکسین لگوائیں، اس کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں”

رانی عندلیب

کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسینشن کے بارے میں بہت زیادہ افواہیں پھیل گئی ہیں جن میں کہ بانچھ پن، ذہنی کمزوری، لڑکیوں کے داڑھی مونچھ نکلنے کا خطرہ اور دو سال بعد مرنا لازمی ہو گا جیسی افواہیں شامل ہیں۔

میرے خیال میں یہ ساری افواہیں غلط اور بے بنیاد ہیں کیونکہ سب سے پہلے ویکسین کی شروعات ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے ہوئی، پھر ٹیچرز اور آرمی والوں کی ویکسینیشن کروائی گئی، بعض ان پڑھ اور کند ذہنیت والوں نے یہ افواہیں پھیلائیں ورنہ کون سی حکومت یہ چاہے گی کہ دو سال بعد ان کی افواج جو سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں وہ خدانخواستہ مر جائیں اور ختم ہو جائیں یا ان کے تمام ٹیچرز، جو ہمارے ملک کے نوجوانوں کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کی تیاری میں لگے ہیں یا ہمارے ڈاکٹرز، اگر یہ نہ ہوں تو لوگ مختلف بیماریوں سے مر جائیں گے اور ملک میں صرف ان پڑھ اور کند ذہن والے لوگ رہ جائیں گے، لوگ یہ سوچتے نہیں اور صرف جھوٹی افواہیں پھیلانے میں لگے ہیں۔

چونکہ کورونا ایک خطرناک بیماری ہے اور اس میں سانس لینا انتہائی سخت ہوتا ہے تو جس طرح سردرد کے لیے ہم پین کلر استعمال کرتے ہیں یا مختلف چھوٹی بڑی بیماریوں سے بچاؤ کے میڈیسن ہم استعمال کرتے ہیں ویسے ہی اس بیماری سے بچنے کے لیے ویکیسن لگانا بہت ضروری ہے۔ ّ

پھر بھی لوگ ان افواہیوں کے باوجود ویکسین لگوا رہے ہیں، جتنی افواہیں زیادہ ہیں اتنی ہی زیادہ تعداد میں لوگ ہسپتالوں کا رخ کر رہے ہیں، ہسپتالوں میں رش کی وجہ سے بعض بڑی جگہوں کو بھی ویکسینشن سنٹر میں تبدیل کر دیا گیا ہے، میں نے نشتر ہال پشاور کا انتخاب کیا۔

جب میں اپنے والدین کے ہمراہ نشتر ہال گئی تو اتنی سخت گرمی کے باوجود وہاں ہال میں گرمی کا احساس بھی نہیں ہوا کیونکہ وہاں اے سی لگا ہوا تھا، سٹاف انتہائی اچھا تھا، بزرگوں کا خیال رکھا جا رہا تھا، میرے والد صاحب کو انتظار گاہ میں ہی ویکسین کی ڈوز لگائی گئی، ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ معمر لوگ کا ایک ہی ڈوز ہے۔

جن لوگوں نے ویکسین لگائی تھی ان سے سن رکھا تھا کہ ویکسین لگانے کے بعد درد اور بخار ہوتا ہے تو میں بہت ڈر رہی تھی لیکن ویکسین لگانے کے بعد ایسا کچھ بھی محسوس نہیں ہوا، میں نے سائنوویک ویکسین لگائی اور ساتھ میں مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ 42 دنوں بعد دوسری ڈوز کے لیے آ جائیں، اس کی ایک وجہ ویکسین کی شارٹیج ہے۔ دوسرا یہ کہ بیرون ممالک جانے والے مسافروں کو زیادہ ویکسین کی ضرورت ہے تو ان کو لگائی جا رہی تھی لیکن ساتھ میں ایک مسلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سائنو ویک اور سائنو فارم ویکسین لگائی جاتی ہیں تو اب بعض بیرونی ممالک اس ویکسین کو نہیں مانتے تو مسئلہ اب یہ ہے کہ جو لوگ باہر ممالک جاتے ہیں وہ کون سا ڈوز لگائیں؟ بعض ممالک چائنہ ویکسین نہیں مانتے، بعض جرمنی والے اور بعض امریکہ والے!

میری رشتے میں خالہ ہیں وہ پچھلے ماہ سعودیہ گئیں اپنے بیٹے کے پاس تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے اپنے بیٹے کے پاس 3 مہینوں کے لیے یا 6 مہینوں کے لیے جاتیں تو 4 یا پانچ عمرے وہ ضرور کرتی تھیں لیکن اس دفعہ انہیں عمرے کی اجازت نہیں دی جا رہی کیونکہ سعودی حکومت چائنہ ویکسین نہیں مانتی۔

اب میں یہی کہوں گی کہ تمام ویکسین بنانے والوں نے کورونا سے بچاؤ کو ذہن میں رکھ کر ویکسین بنائی ہیں تو کوئی بھی ویکسین غلط اور نقصان دہ نہیں، دوسرا یہ کہ جب ایک ملک والے دوسرے کی ویکسین سے انکاری ہیں اور ہر ملک کے لیے الگ ویکسین تو اس میں عوام کا کیا قصور؟ اب اگر ایک بندہ دبئی اور چائنہ جائے تو وہ کون سا ڈوز استعمال کرے گا؟

اور جو لوگ ویکسین لگانے سے ڈر رہے ہیں میں انہیں یہی مشورہ دوں گی کہ ویکسین لگوائیں، اس کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button