افغانستانبین الاقوامی

طالبان کی پیش قدمی، قندھار میں بھارتی قونصل خانہ بند

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کے پیش نظر بھارت نے قندھار کا قونصل خانہ بند کر دیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق 50 بھارتی سفارکاروں سمیت اسٹاف کے ارکان کو خصوصی طیارے کے ذریعے واپس نئی دلی بلا لیا گیا، قونصل خانے کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے۔

افغانستان میں بھارتی سفارتی موجودگی برقرار ہے، کابل کا سفارت خانہ اور مزار شریف کا قونصلیٹ روزمرہ امور سر انجام دے رہے ہیں۔

ادھر چین نے امریکا کو افغان مسئلے کا اصل مجرم قرار دے دیا۔ چینی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا نے افغانستان میں اپنی ذمہ داریاں نظر انداز کیں اور عجلت میں فوجی دستے نکالے، امریکا نے اس عمل سے افغان عوام، خطے کے دیگر ممالک پر ملبہ ڈال دیا، ”افغان مسئلے کی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔”

چینی بھی واپس

افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے موقع پر چین نے اپنے شہریوں کو ایک ہنگامی چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے واپس اپنے وطن پہنچا دیا ہے، چین کی حکومت کے اس اقدام کو چینی سوشل میڈیا پر قومی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان دارالحکومت کابل سے چینی شہر ووہان کے لیے روانہ ہونے والی خصوصی پرواز کے ذریعے 210 چینی شہریوں کو وطن واپس پہنچا دیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں:

”طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا”

”افغانستان میں جنگ مسئلے کا حل نہیں”

”دوحہ مذاکرات کامیاب ہوئے تو تمام کارروائیاں بند کر دیں گے”

کابل: نازش ڈگری مکمل کئے بغیر تعلیم کو خیرآباد کہہ دیں گی

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان وانگ وین بین نے امریکا کو افغانستان کی صورتحال کا ذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنی ذمہ داری اور فرائض کو نظرانداز کر رہا ہے اور عجلت میں اپنے فوجیوں کو واپس لے کر جا رہا ہے، امریکا افغان عوام اور خطے میں جنگ چھوڑ کر جا رہا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق بیجنگ حکومت نے اپنے شہریوں کو بحفاظت وطن واپس پہنچانے کے لیے اس خصوصی پرواز کا انتظام کیا تھا۔ اس کے بعد چین میں سوشل میڈیا پر افغانستان سے چینی باشندوں کی واپسی کو قومی فتح تصور کیا جا رہا ہے۔

اس خصوصی پرواز کی ویڈیو کو تین سو ملین افراد نے دیکھا ہے اور چینی شہریوں کی وطن سے واپسی سے متعلق متعدد ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ شیامین ایئرلائن کے پائلٹ کے بقول، ”اس راستے پر پرواز کرنا آسان نہیں، ہم ایک بھی ہم وطن کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔”

صدر اشرف غنی کا دعوی اور روزانہ 600 اموات

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے ہی 2 سال پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا تھا کہ امریکا افغانستان چھوڑ دے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اپنے ایک بیان میں اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ملک میں موجودہ تشدد کے ذمہ دار طالبان ہیں جس میں ہر روز 200 سے 600 افراد مارے جا رہے ہیں۔

اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ اب کس لیے لڑ رہے ہیں اور اس سے کس کا فائدہ ہو گا۔

افغان طالبان کی پیش قدمی کشمیر میں عسکریت پسندی کو فروغ دے گی۔ تجزیہ نگار

نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا تیزی سے جاری ہے لیکن طالبان کئی افغان اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں، ماہرین نے کہا ہے کہ افغانستان میں مسلح گروہ کی برتری سے مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مبصرین کو خدشہ ہے کہ اگر افغان طالبان اسی طرح اپنی پیش قدمی جاری رکھیں گے اور مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیں گے تو مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلح عسکریت پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

معروف دفاعی تجزیہ کار اور سابق بھارتی فوجی افسر پروین سوہنی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو کشمیر پر اس کا یقینی طور پر اثر ہو گا۔

سوہنی نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے زیر قیادت موجودہ حکومت زیادہ دیر اقتدار میں نہیں رہ سکے گی۔ سوہنی کے بقول طالبان جنگجو مٹی کے فرزند ہیں، ”وہ پہلے ہی ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کا دعوی کر رہے ہیں ایسے میں نیٹو کے انخلا کے بعد مجھے کشمیر پر اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔”

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button