معدنی وسائل سے مالامال ملک اور ہماری معاشی بدحالی
وسیم خٹک
اللہ تعالیٰ کے پاکستان کو معدنی وسائل سے کتنا مالا مال کیا ہے اس کا ہم سوچ اور تصویر ہی نہیں کرسکتے، ہمارے لیے پاکستان میں میدان، پہاڑ، صحرا، سمندر اور چاروں موسم قدرت کی عطا ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان، پانچویں بڑی سونے کی کان اور کوئلے کے پانچویں بڑے ذخائر، تانبے کی ساتویں بڑی کان، عالمی سطح پر دوسرا بڑا تربیلا ڈیم، تین نیوکلیائی ریکٹرز اور دنیا کا بہترین نہری نظام ہمارے پاس موجود ہے۔
ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہیں، ہم چاول کی پیداوار میں ساتویں اور گندم کی پیداوار میں آٹھویں نمبر پر ہیں۔ یہ سب ہوتے ہوئے بھی ہمارا ملک ترقی سے دور ہے اور وطن عزیز کو سنگین معاشی چینلجز کا سامنا ہے جس کے لیے اب موجودہ حکومت اور عسکری قیادت نے خود انحصاری کی پالیسیوں پر غور وفکر شروع کردیا ہے اور اب اس مقصد کے لئے ‘مِنرل سمٹ 2023’ کا انعقاد بھی کیا گیا مگر اس سے پہلے میڈیا پر ویڈیوز چلائے گئے کہ پاکستان معدنی وسائل سے مالامال ملک ہے اور ان معدنی ذخائر اور ان کے ساتھ جڑے معاشی امکانات پر اگر سوچا جائے تو ہمیں کسی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس تقریب میں عسکری قیادت کے علاوہ دیگر ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ اس ایونٹ میں بتایا گیا کہ ہم من حیث القوم تن آسانی کا شکار ہیں، ہماری پالیسیاں ایڈہاک ازم پر چل رہی ہے، ہم خود انحصاری کی بجائے دوسروں کے سہارے ڈھونڈنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ معدنی وسائل کا پتہ چلانے کے لیے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی مگر اب ہم خودانحصاری کی راہ پر چلیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے ریگستان میں کوئلے کے بڑے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ صحرائے تھر دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے اس میں 9 ہزار 600 مربع کلو میٹر پر 175 بلین ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں جن سے آئندہ پانچ سو برسوں تک سالانہ پچاس ہزار میگاواٹ بجلی یا دس کروڑ بیرل ڈیزل یا لاکھوں ٹن کھاد بنائی جاسکتی ہے۔ 20 برس قبل انکشاف ہوا تھا کہ یہ دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی کوئلے کی کان ہوسکتی ہے اس کی نشاندہی تو ہوگئی لیکن اس سے ہم نے کتنا استفادہ کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ دس برسوں میں پاکستان کی بجلی کی مانگ تیس ہزار میگاواٹ تک ہوسکتی ہے اور 30 ہزار میگاواٹ صرف تھرکول سے دس برسوں میں حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ہمارے پاس تین نیوکلیئر ری ایکٹر ہیں لیکن ہم بجلی کے بحران سے دوچار ہیں، اندھیرے میں ڈوبے پڑے ہیں، قوم چوراہوں میں سوئی پڑی ہے۔ صاحب اقتدار رینٹل پاور کمپنیوں کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، ہمارے اداروں کو کرپشن نے دیمک زدہ کر رکھا ہے۔ ہم اس بات پر نازاں ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم تربیلا کی صورت میں موجود ہے، لیکن کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرکے ہم اپنی زمینیں بنجر کرنے اور بجلی کے بحران کو گمبھیر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا ترقی کے مواقع تلاش کرتی ہے، خوراک میں خود کفالت کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور وسائل پیدا کرنے پر جتی ہوئی ہے اور ہم اپنے قدرتی وسائل کو ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا کر ترقی کے مواقع ضائع کر رہے ہیں۔
ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات معدنیات سے مالامال ہیں جہاں ہیرے اور قیمتی پتھر اور دیگر معدنی وسائل دریافت کرنے پر کوئی قابل ذکر توجہ ہی نہیں دی گئی حالانکہ ان سے استفادہ کرنے کی صورت میں نہ صرف صوبہ بلکہ پورے ملک کی پسماندگی دور کی جاسکتی تھی۔ آبشاریں، ندی نالے اور دریا ان علاقوں کا جھومر ہیں لیکن اس قدرتی نعمت کے ذخیرہ کرنے کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے جب یہ ندی نالے بپھرتے ہیں تو اپنے ساتھ ایک تباہی لاتے ہیں اور ہمیں پکار پکار کر کہتے ہیں کہ آئندہ کی منصوبہ بندی کرلو، اضافی پانی کو ضائع ہونے سے بچالو کیونکہ ضرورت کے وقت یہی تمہارے لئے، تمہاری فصلوں اور مویشیوں کے لئے آب حیات ہو گا، تمہارے باغات، تمہاری کھیتیاں تمہارے لئے خوشحالی کا پیغام لائیں گی اگر تھوڑی اور منصوبہ بندی کرلیں تو مستقبل میں تمہیں بجلی کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ہمارے صوبہ پنجاب تو پانچ دریاؤں کی دھرتی ہے دنیا کا بہترین نہری نظام ہے۔ پنجاب کی سرزمین جو کبھی پورے ملک کی اناج کی ضروریات پوری کرتا تھا آج اس کی زمین پانی کے لئے ترس رہی ہے کیونکہ آج ہمیں اپنی غذائی ضروریات کے لئے بھی دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑ رہے ہیں کیوں اس پر بھی کبھی ہم نے سوچا غیروں کی سازشیں تو تھیں اپنوں کی ریشہ دوانیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ تین دریاؤں کا پانی تو ہم نے ایک معاہدے کے تحت بھارت کے حوالے کر دیا اور باقی دریاؤں پر اس نے غیر قانونی ڈیم بنا کر ان کا بہت سا پانی روک لیا لیکن ہم ابھی تک کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر اتفاق رائے تو پیدا نہ کرسکے البتہ اختلافات کی خلیج گہری کرلی۔
ہمارا ازلی دشمن ہماری زراعت کو تباہ کرنے کے لئے لانگ ٹرم منصوبے پر عمل پیرا ہے اور ہماری عقل پر پردے پڑے ہیں ہماری منصوبہ بندی کا یہ حال ہے کہ صحراؤں کو قابل کاشت بنانے کی بجائے پنجاب کے زرخیز علاقوں کو بھی بنجر بنا رہے ہیں، سندھ میں بڑے پیمانے پر اب بھی زمینیں غیر آباد ہیں جنہیں آباد کرکے خود کفالت کی منزل آسان ہوسکتی ہے۔
مگر محنت کون کرے؟ ہم تن آسان ہوگئے ہیں یہی حال صوبہ بلوچستان کا ہے جو رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جہاں ایک بڑا رقبہ زیر کاشت نہیں وہاں کروڑوں روپے کا پھل اس لئے ضائع ہوجاتا ہے کہ اسے سٹوریج کرنے اور منڈیوں تک رسائی کا انتظام نہیں ہے اگرہمارے پاس سٹوریج اور فروٹ پیکنگ کا مناسب انتظام ہوتا اور پھل کی منڈیوں تک رسائی آسان ہوتی تو اس سے جہاں کروڑوں روپے زرمبادلہ کمایا جاسکتا تھا وہاں مقامی لوگوں کی خوشحالی اور روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوتے۔ ہم نے چاغی کے علاقے میں ایٹمی تجربات کرکے ملک کو ساتویں ایٹمی قوت بنا دیا اور پھر چاغی پہاڑ کے ماڈلوں پر کروڑوں روپے خرچ کئے، ماڈل ضرور بننے چاہئیں، لیکن اس سے زیادہ بہتر ہوتا کہ چاغی کے علاقے میں رہنے والے لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتیں۔ بلوچستان کا علاقہ گولڈ تابنے، کوئلے، تیل کے خزانوں سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم ابھی تک اس علاقے کی قدرتی نعمت ’سوئی گیس سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن صوبہ بلوچستان کا بیشتر علاقہ اس سہولت سے بھی محروم ہے ہم نے ان معدنی وسائل کا پتہ چلانے کے لئے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور خود کو پسماندگی کی اٹھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔
ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہیں، ہمارا دفاع مضبوط ہے، ہماری فوج جرات و شجاعت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ ہمارے دشمنوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ ہم جنگ سے پاکستان پر غلبہ نہیں پاسکتے اس لئے اب پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ ہماری افواج بالخصوص آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے ان سب سے بڑھ کر ملک کی معیشت کو تباہ کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے یہ ایک بڑا خوفناک ہتھیار ہے جس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ سوویت یونین ہر قسم کا جدید اسلحہ رکھنے کے باوجود اس لئے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا کہ اس کی معیشت کا بیڑہ ڈوب گیا تھا۔ ہمارے پاس بندرگاہیں ہیں ہم چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے تجارت کا گیٹ وے ہیں لیکن ہم ناقص پالیسیوں کے باعث اپنی تجارت کا بھی خاطر خواہ حجم نہیں بڑھا سکے، ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ ملک ہم سے ہی زرعی اجناس سستے داموں خریدنے کے بعد مہنگے داموں ہمارے ہاتھ ہی فروخت کردیتا ہے یہ صورت حال من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے، ہمیں ان خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنا ہوگا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لائیں اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے تن من دھن لگا دیں اپنی تن آسانیاں ختم کردیں تو ہم اس خطے میں ایک نئی طاقت بن کر ابھریں گے۔ کیوں جس ملک کے صرف ایک صوبے میں کھربوں ڈالرز کے معدنیات کے ذخائر ہیں۔ ضلع مہمند سے سالانہ (تیرہ لاکھ ساٹھ ہزار ٹن) ماربل نکالا جاتا ہے اور سولہ سو ٹن سوپ سٹون جبکہ مہمند سے 1935 ٹن نیفرائیٹ نکالا جا رہا ہے۔ وزیرستان شیوا کے مقام سے سالانہ 1.5 ارب ڈالرز کمائی کا صرف گیس نکالا جا رہا ہے۔ ولی آئل فیلڈ بیٹنی سے روزانہ 1000 سے 3000 بیرل تیل اور 1 سے 5 کروڑ مگا فٹ گیس نکلتی ہے۔
پختونخوا کا تربیلہ ڈیم 5000 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جس سے 250 بہت بڑے کارخانے بن سکتے ہیں۔ کرک میں صرف ایک ارب ٹن چونے کا پتھر موجود ہے جس کی قیمت 600 ارب ہے، ایک گرام یورینیم اتنی آگ پیدا کرتا ہے جتنا سو کلو کوئلہ جل کر پیدا کیا جاتا ہے۔ کرک کے تحصیل تخت نصرتی اور بانڈہ داود شاہ کے پہاڑ بھرے پڑے ہیں، یورینیم کا کلو کروڑوں میں ہے۔ پاکستان میں روزانہ 70 ہزار بیرل تیل نکالا جاتا ہے۔ اس کا 60 فیصد پختونخوا میں نکالا جاتا ہے کرک کے بہادر خیل اور جٹہ اسمیل خیل میں اربوں ٹن بہترین قسم کا نمک نکالا جاتا ہے جو 1.3 روپے فی کلو کے حساب سے سالانہ 1.5 لاکھ ٹن نکالا جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان کے ایک ٹن کاپر 7000 ڈالرز میں فروخت ہوتا ہے جو 36000 ملین ٹن صرف ایک جگہ موجود ہے۔ ایشہ وزیرستان کے مقام پہ اتنا تیل موجود ہے کہ پاکستان چالیس سال تک کسی سے انرجی کیلئے تیل نہیں مانگے گا۔
عرب ممالک میں ہر دس تیل کے کنوؤں میں صرف ایک تیل کا کنواں کامیاب ہوتا ہے اور وزیرستان میں ہر تیسرے کنویں میں تیل نکلتا ہے۔ وزیرستان کے سیاحتی مقام ( شوال، رزمک، میکن لدھا، کانگرم، سام، بدر) ٹورزم سے سالانہ 4 ارب روپے کاروبار کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے مقامی 3000 افراد مستفید ہوسکتے ہیں اور انہیں روزگار مل سکتا ہے۔ پختون بیلٹ میں (700 کروڑ کیرٹ وزن کے) کھربوں روپے کہ جواہرات موجود ہیں۔ ضلع کرم میں 32 لاکھ ٹن سوپ سٹون پایا جاتا ہے جس سے میک اپ پاوڈر کا سامنا بنتا ہے۔ گومل کے پہاڑوں میں کوئلے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا میں (ابھی) ٹوٹل تقریباً مختلف معدنیات کے 33000 مائزن میں کام ہو رہا ہے۔ بونیر میں 2 ارب ٹن ماربل اور ایلم پہاڑ میں یورینیم کے وافر مقدار موجود ہے۔ چترال بلاک میں ایک ارب ٹن ماربل پایا جاتا ہے۔ درہ آدم خیل سے سالانہ 350،000 ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ اورکزئی میں کوئلے کی سالانہ پیداوار 76000 ٹن ہے۔ جنوبی پختونخوا کے ضلع دکی سے ہر روز 5000 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ کوہاٹ ٹنل سے روزانہ 30 سے 35 ہزار گاڑیاں گزرتی ہے ہر گاڑی کا ٹیکس 70 سے لے کر 400 تک ہے۔
شمالی وزیرستان کے 6 کھرب ڈالرز کے وسائل سے پورے پختون وطن کی تقدیر بدلنے کے لئے کافی ہیں اس کے علاوہ جیا لوجیکل سروے آف پاکستان کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں چھ کھرب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ ان معدنیات میں آئرن 14 سو ملین ٹن، کاپر چھ ہزار ملین ٹن، سونا اعشاریہ 134 ملین ٹن، چاندی 618 ملین ٹن، ٹنگسٹن تین اعشاریہ ایک ملین ٹن، میگنیسائٹ اعشاریہ 597 ملین ٹن، لیڈ زِنک 23 جبکہ کرومائیٹ دو اعشاریہ پانچ ملین ٹن ہیں۔ سروے کے مطابق نان مٹیلک معدنیات میں ماربل اور گرینائٹ کی مقدار چار ہزار 298 ملین ٹن، اونیکس دو جبکہ کوئلہ ایک لاکھ 86 ہزار ملین ٹن ہے۔ صنعتی استعمال کی معدنیات میں برائٹ، ڈولومائٹ، فیلڈپار، راک سالٹ، فاسفیٹ، سلیکا سینڈ، جپسم اور سوپ سٹون پائے جاتے ہیں۔ ان کی جپسم کی مجموعی مقدار چار ہزار 850 ملین ٹن بتائی گئی ہے۔ اب اسلام آباد میں ہونے والی سمٹ کے بعد سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آنے والے وقت میں پاکستان ان سب معدنی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئے سیریس ہوچکا ہے اور اس کا ثمر آنے والے سالوں میں ہمیں ملے گا۔
اس حوالے سے ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر ذلاکت خان صاحب کا کہنا تھا کہ جو معدنیات ہمارے پاس ہیں جو چھ ٹریلین ڈالر کا ذخیرہ ہے اس کو نکال کر پیسوں میں تبدیل کرنے میں حکومت کی مرضی کا عمل دخل ہوگا کہ وہ اس میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں، جو کم ترقی یافتہ ممالک ہوتے ہیں اُن کے پاس مشینری اور پیسوں کی کمی ہوتی ہے اور ٹیکنالوجی کی کمی ہوتی ہے اس لئے باہر ممالک پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وہ ان سنٹرز میں سرمایہ کاری کرتے ہیں معدنی وسائل کو نکالتے ہیں۔ یہ ہماری حکومت پر دارومدار ہے کہ ہم کس طرح باہر کے ممالک کے لوگوں کو اس میں انوال کرتے ہیں کہ اس کو ملکی ترقی کی راہ میں لگایا جائے ۔ ان کے مطابق اس کے لئے سب سے ضروری بات امن ہوتا ہے اگر باہر کا کوئی سرمایہ دار خود کو غیر محفوظ تصور کرے گا تو وہ کبھی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا اس لئے سب سے نہایت اہم اور ضروری چیز خطہ میں امن کا قیام ہے اور ان اداروں کی سورٹی ہے جس کے بعد وہ دلجمعی سے بغیر خوف و خطر کے کام کریں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں جو معدنیات کے ذخائر ہیں وہ بلوچستان، سندھ میں زیادہ ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی کوئی کمی نہیں مگر یہ مشترکہ جائیداد ہوتی ہے جن میں قبائل کا حصہ ہوتا ہے جب تک اُن قبائل اور لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا ہم ان وسائل تک آسانی کے ساتھ نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ حکومت سے اس میں شئیر مانگتے ہیں جو کہ اُن کا حق ہوتا ہے مگر اس پہلو سے ہمارے ملک ميں پہلو تہی کی جاتی ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسائل ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے
1973 کا دستور پاکستان یہی کہتا ہے کہ جہاں سے گیس، پٹرول یا دیگر معدنیات نکلتی ہے تو سب سے پہلے حق اس علاقے کے باشندوں کا ہوتا ہے تاکہ وہ اس سے مستفید ہو۔
نوٹ: لکھاری کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں