لائف سٹائلکالم

تیرے بن ڈرامہ: رائٹر دکھانا کیا چاہتا ہے؟

حمیراعلیم

پرانے وقتوں میں جب پاکستان میں کیبل اور ڈش کی آمد نہیں ہوئی تھی صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا جو ہر عمر کے افراد کی اینٹرٹینمٹ کے لیے کافی تھا۔ بچوں کے لیے تعلیمی پروگرامز ، کارٹونز اور اسٹار ٹریک، نائٹ رائیڈر، وش بون جیسی موویز ، بزرگوں کے لیے خبرنامہ اور حالات حاضرہ کے لیے پروگرامز اور نوجوانوں کے لیے ڈرامے اور فلمیں پھر پرائیویٹ چینلز کی بھرمار ہو گئی اور انٹرٹینمٹ انڈسٹری شوبز بن گئی۔

اس شوبز اور چینلز کی بڑھتی تعداد نے مقابلے کی فضا پیدا کر دی اور ریٹنگ کی اس دوڑ میں ڈراموں، فلموں اور دیگر پروگرامز سے کوالٹی ختم ہو گئی اور صرف کوانٹٹی رہ گئی۔ آج کل دو نجی ٹی وی چینلز سے دو ڈرامے: ‘ تیرے بن’ اور ‘ مجھے پیار ہوا ‘ دکھائے جا رہے ہیں جو اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی صاحب عقل شخص اس قسم کے کونٹینٹ کو پسند کرنا تو دور کی بات اسے برداشت بھی نہیں کر سکتا۔

یہ دو شادی شدہ خواتین کی کہانیاں ہیں۔ ایک جو شادی سے پہلے اپنی کزن کے دوست کے ساتھ پیار کرتی ہے جسے اس لڑکے کی امیر والدہ اور کزن بارات اور ولیمے کے موقعہ پر ذلیل کرتی ہیں اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ان خواتین کا منہ توڑ سکے اور انہیں دھکے مار کر گھر سے نکال سکے۔ الٹا لڑکی کے والد کو فالج ہو جاتا ہے اور تایا کی وفات۔

لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ رہنے اس کا احسان ماننے کو تیار نہیں حتی کہ اس کے شوہر کو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے مگر وہ اپنے محبوب کے ساتھ ہاسپٹل میں بیٹھی رہتی ہے۔ شوہر کو سب معلوم ہوتا ہے مگر وہ بیوی کے عشق میں اتنا اندھا ہوتا ہے کہ نہ خود اسے کچھ کہتا ہے نہ ہی کسی اور کو کہنے دیتا ہے بلکہ حوالات سے آکر خود اسے اس کے محبوب سے ملوانے کی آفر کرتا ہے۔

بیوی کی خالہ زاد کزن اسے مسلسل شوہر کے خلاف اکساتی رہتی ہے اور محبوب کی اور اس کی مظلومیت پر لیکچر دے دے کر اس کا دماغ خراب کرتی رہتی ہے کہ تم شوہر سے طلاق لے کر محبوب سے شادی کر لو اور لڑکی اس قدرمعصوم، حالانکہ عموما معاشرے میں ایسی لڑکی کو بے وقوف اور بدکردار کہا جاتا ہے، ہے کہ اسے شوہر کی محبت اور والدین و سسرال کی عزت کا کوئی خیال نہیں ہوتا اپنی خواہش نفس کی پرواہ ہوتی ہے لہٰذا وہ محبوب سے مستقل رابطے میں رہتی ہے۔

دوسری لڑکی کی شادی گھر والوں کی مرضی سے ہوتی ہے جسے وہ انا کا مسئلہ بنا لیتی ہے۔ اپنے شوہر سے شادی سے پہلے ایک معاہدے پر دستخط کرواتی ہے جس کی خاص شق یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے اس کی مرضی کے بغیر چھوئے گا بھی نہیں اور شوہر جونکاح کے وقت تک اس سے شدید نفرت کرتا ہوتا ہے نکاح ہوتے ساتھ اس کے عشق میں گوڈے گوڈے غرق ہو کر اس کا دل جیتنے کے لیے کچھ بھی کر جاتا ہے۔

ایک ایسا خاندان جہاں روایات، مذہب اور کلچر کا پاس رکھا جاتا ہے لیکن عورت اس گھر کے فیصلے کرتی ہے اور مرد اس کا حکم مانتے ہیں۔ جہاں لڑکیاں پردہ کر کے باہر جاتی ہیں اور سر پر دوپٹہ لازم ہوتا ہے وہی سربراہ خانہ جو شادی پر بہو کے رقص پر اسے بھری بارات میں تھپڑ مار کر اس کی غلطی کا احساس دلاتی ہے کہ بہو نے ان کی عزت خاک میں ملا دی۔خود بھانجی کو دعوت رقص دیتی ہے اور بھانجی صاحبہ ایسے ناچتی ہیں کہ کیا ہی کوئی پروفیشنل رقاصہ بھی ناچے گی۔ جہاں لڑکیوں کو اکیلے بازار تک جانے کی اجازت نہیں وہیں لڑکیاں اکیلے جادوگر کے پاس جاتی ہیں، منہ اٹھا کے کہیں بھی چلی جاتی ہیں، محبوب سے ملنے ہوٹلز جاتی ہیں، شاپنگ کرتی ہیں اور اپنے گھر پر محبوب سے بات بھی کرتی ہیں ملتی بھی ہیں لیکن کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔

لڑکی اپنی من مانی کرتی ہے باپ، ساس، شوہر کسی کی نہیں سنتی مگر سب اسے برداشت کرتے ہیں حتی کہ وہ نند کو گھر سے بھگا بھی دیتی ہے مگر اس کا قصور نہیں دکھایا جاتا۔ اس کی کزن نند جو ویڈیوز بنا بنا کر اس کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے اسے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ تم نے ویڈیو بنانے کی بجائے ماں بیگم یامرتسم کومطلع کیوں نہیں کیا۔

نند جو خاندانی روایات میں جکڑی ہوئی ڈری سہمی لڑکی ہے لیکن اپنے دشمن سے پیار کی پینگیں بڑھا کر اتنی بے خوف ہو جاتی ہے کہ محبوب اسے بیڈروم میں راتوں کو ملنے آتا ہے اور وہ دروازہ بند کرنے کی بھی زحمت نہیں کرتی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس قدر سیکورٹی گارڈز کی موجودگی میں بھی محبوب اسے ملنے آتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ بہن کو منہ مانگی قیمت ادا کر کے جب بھائی دشمن کے چنگل سے چھڑا لاتا ہے تو ماں سارا الزام بہو پر دھر کر اسے گھر سے نکال دیتی ہے۔ شوہر اسے اس کے رضاعی والدین کے ہاں چھوڑ تو آتا ہے مگر مجنوں بنا پھرتا ہے۔ نند شادی کے لیے ماں کے سامنے یہ شرط رکھتی ہے کہ بھابھی واپس آئے گی تو وہ رخصت ہو گی۔ چنانچہ ماں بہو کوگھر لے آتی ہے۔ نند صاحبہ شوہر نامدار کو اپنا سارا کچا چٹھہ خود سنا کر اپنی معصومیت ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ایک اور قیس سامنے آتا ہے جب اس کا شوہر اس کی تمام خطائیں نہ صرف اس لیے معاف کر دیتا ہے کہ وہ اسے پیار کرتا ہے بلکہ اس کے گھر والوں سے لڑنے بھی پہنچ جاتا ہےکہ اس کی بیوی کا کوئی قصور نہیں قصور سارا اس کی ماں اور بھائی کا ہے چنانچہ اب اس کی بیوی کبھی اپنے میکے نہیں جائے گی۔

بھابھی صاحبہ شادی میں آتی ہیں تو حسب معمول کزن نند ، جو کہ اس کے شوہر پر فدا ہے، کی چال میں آ کر شوہر پر اعتبار نہ کرتے ہوئے اسے بدکردار کہتی ہے گالیاں دیتی ہے اس کے منہ پر تھپڑ مارتی ہے تھوکتی ہے جس پر شوہر کے اندر کا سویا ہوا مرد جاگ جاتا ہے اور نتیجہ وہ اپنا حق وصول کر لیتا ہے۔ باہر بہن کی رخصتی کا وقت ہوتا ہے اوربھائی بھابھی اپنی شادی کی تکمیل میں مصروف ہوتے ہیں۔اس کے بعد ہیروئین کو کچھ اس طرح سے دکھایا جاتا ہے جیسے اسے کسی غنڈے بدمعاش نے ریپ کر دیا ہو اور شوہر ایسے ہوتا ہے جیسے ایک پاکباز شخص سے کسی نامحرم کا ریپ ہو جائے۔

شوہر صاحب اپنے گناہ کا غم غلط کرنے گھر سے باہر چلے جاتے ہیں روتے پیٹتے ہیں اور بیگم صاحبہ راتوں رات بس میں بیٹھ کر کراچی پہنچ جاتی ہیں لیکن اپنے رضاعی والدین کے گھر جانے کی بجائے بس سڑکوں پر بھٹکتی رہتی ہے۔یہ وہی لڑکی ہے جو شوہر سے نفرت کرتی ہے اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس کے نکاح میں ہوتے ہوئے اکیلی اپنے عاشق کے فلیٹ اور ہوٹلز میں اسے ملتی ہے لیکن ہر قدم پر باوفا اور باکردارشوہر کو کٹہرے میں کھڑا کر کے بدکردار اور بے وفاثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ وہی لڑکی ہے جو خاندان کی روایات کے برعکس چادر کے بغیر کہیں بھی نکل جاتی ہے حتی کہ پنچایت میں پورے گاوں کے سامنے اپنے سرپنچ شوہر کے فیصلے کے خلاف نہ صرف بولتی ہے بلکہ جو کچھ کہتی ہے وہی ہوتا بھی ہے۔

اگر ان دونوں ڈراموں کا تجزیہ کریں تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کہانیاں کم از کم پاکستانی معاشرے کی تو نہیں ہیں ۔جہاں صرف شک کی بناء پر بھائی، باپ، سسرال اور شوہر لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیتے ہیں وہاں ایسی احمق، بدکردار اور بدتمیز لڑکیوں کی من مانیاں کیسے برداشت کی جا سکتی ہیں؟

کون سا ایسا شوہر ہے جو اپنا حق زوجیت استعمال کر کے گلٹ کا شکار ہو جائے اور کون سی ایسی بیوی ہے جو شوہر کے اس حق کے استعمال پر ریپ زدہ عورت کی طرح روئے دھوئے اور گھر سے ہی بھاگ جائے؟ کون سا ایسا شوہر یا سسرال ہے جو ایک ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے بارات والے دن ذلیل کیا جائے، پھر اس کے عاشق سے رابطے پر معترض نہ ہو الٹا شوہر ایک بے غیرت انسان کی طرح خود ان کی ملاقاتوں کے مواقعے پیدا کرے۔ کون سی بیوی اپنے شوہر کو مصیبت میں چھوڑ کر اپنے عاشق کے ساتھ بیٹھی رہتی ہے۔

کون سی ماں بیٹی کو عاشق کی طرف مائل کرتی ہے اور شوہر اور سسرال سے بدظن کرتی ہے اور اسے یہ احساس دلاتی ہے کہ اس پر ظلم ہوا ہے حالانکہ بیٹی کی وجہ سے ساری دنیا کے سامنے ذلت کا سامنا ہوا ہوتا ہے مگر لالچ اور ضد کی وجہ سے اسے مجرم معصوم اور معصوم مجرم لگتا ہے۔

ان دونوں ڈراموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یا تو رائٹرز کے دماغ میں خلل ہے جو ایسے بکواس ڈرامے لکھے ہیں جن کا سر پیر ہی نہیں یا پھر وہ اس مغربی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کامقصد نظریاتی جنگ کے ذریعے مسلمانوں کی اخلاقیات کو تباہ کر کے انہیں اسلام سے دور کر کے انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دینا ہے۔ یا پھر کسی انڈین یا ترکی ڈرامے کی کہانی کو ڈراماٹائز کر کے اسکا پاکستانی ورژن بنا دیا گیا ہے کیونکہ صرف ان کے ہاں ایسی بے حیائی ہوتی ہے۔

ان ڈراموں کی ریٹنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے لوگ عقل سے کتنے فارغ ہیں اور نوجوان نسل اس پراپیگنڈے کا کتنی آسانی سے شکار ہو کر اخلاقیات کی ہر حد کو پار کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔ ایسے ڈرامے ہی ہمارے بچے بچیوں کی ذہن سازی کر کے انہیں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے ساتھ گھر سے بھاگ جانے، شادی نہ ہونے پر خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ارباب اختیار و اقتدار ،سنسر بورڈ اور پیمرا نامی ادارے کہیں خواب خرگوش میں مگن ہیں اور ایسی کھلی کھلا فحاشی کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا جا رہا۔ اگر ٹی وی چینلز کوئی تعمیری کام نہیں کر سکتے تو خدارا تخریبی کارروائیوں سے بھی اجتناب کریں کیونکہ ذہنی و اخلاقی پستی کسی بھی معاشرے کے زوال کا آغاز ہوتی ہے۔

کیا ہمارے رائٹرز اور پروڈیوسرز سسرالی سازشوں، بہو کی مظلومیت یا اس کے ظلم اور قطع رحمی کے علاوہ کسی موضوع پر کام نہیں کر سکتے۔ کیا آج کے دور میں الف اور خان جیسے ڈرامے نہیں بن سکتے؟؟؟؟ رائٹرز پر بہت بڑی ذمہ داری ہے وہ اپنے قلم کی طاقت سے معاشرے کو بگاڑ بھی سکتے ہیں اور سدھار بھی۔ اس لیے میری ان سے گزارش ہے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور صرف مالی فائدہ ہی نہ دیکھیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button