لائف سٹائلکالم

لاہور نے ”سموگ” میں دہلی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا

ارم رحمٰن

پاکستان کے دل اور پنجاب کے دارالحکومت، ہمارے پیارے لاہور کو ایک بہت ہی شرمناک اعزاز سے نوازا گیا ہے جس کو وہ دو سال سے برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہ ایسا اعزاز ہے کہ دل سے دعا ہے یہ اعزاز اس سے ہمیشہ کے لیے چھن جائے آمین!

اعزاز یہ ہے کہ "لاہور گزشتہ دو سالوں سے دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا جا رہا ہے۔”

30 نومبر 2022 کی رپورٹ کے مطابق 29 نومبر کو صبح 9 بجے ائیر کوالٹی انڈیکس (AQI) 493 تھا جو انتہائی خطرناک حد ہے کسی بھی جگہ کی اور لاہور میں بھی جو خطرناک ترین حد تک 565 ریکارڈ کیا گیا۔ مزے کی بات لاہور نے اپنے روایتی حریف نئی دہلی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔

ڈان اخبار کے مطابق لاہور کا سرکاری ائیر کوالٹی انڈیکس صبح 9 بجے سے شام 5 بجے کے درمیان اوسطاً 289 رپورٹ کیا گیا اور اس کو مانیٹرنگ اداروں نے 397 بتایا جبکہ نئی دہلی 187 کے ساتھ لاہور کی آلودگی کی سطح کے نصف سے بھی کم پر کھڑا ہے۔ صنعتی علاقوں میں 500 سے زیادہ اے کیو آئی پہنچ گیا جو خطرناک حد سے بھی تجاوز کر گیا، رائے ونڈ سرسبز علاقہ ہے یہاں پر 403 پر پایا گیا۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق یہ اسموگ نہیں آلودگی ہے۔

سموگ اور فوگ میں کیا فرق ہے؟

سموگ اس وقت ہوتا ہے جب دھواں دھند کے ساتھ مل جاتا ہے؛ اس سے فضا میں جانے والی آلودگی کے ذرات دھند کے ساتھ مل کر سموگ پیدا کرتے ہیں، دھوئیں اور دھند کا متزاج سموگ کہلاتاہے جبکہ دھند جو کہر یا غبار کی وجہ سے فضا میں چھا جاتی ہے سطح زمین کے پاس آبی بخارات کا تکاثف جو عموماً نظر کو دھندلا دیتا ہے، دھند کو ہوا میں تیرتے ہوئے بادلوں کی ایک قسم سمجھا جا سکتا ہے۔

سموگ کیسے بنتی ہے؟ جب فضا آلودہ ہو یا گیسز جو سموگ کو تشکیل دیتی ہیں وہ اگر ہوا میں خارج ہوں تو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ان گیسوں اور اجزاء کے ساتھ مل کر ماحول پر ردعمل کا اظہار سموگ کی شکل میں کرتی ہے اس کی بڑی وجہ ہوا کی آلودگی میں ہی ہوتی ہے۔

عام طور پر زیادہ سردی زیادہ درجہ حرارت سورج کی روشنی اور ٹھہری ہوئی آلودگی کا نتیجہ ہوتی ہے، یعنی موسم سرما میں جب ہوا چلنے کی رفتار کم ہوتی ہے تو اس سے دھند اور ٹھہری ہوئی ہوا کا نتیجہ ہے۔ یوں سمجھیے کہ "سموگ” دھوئیں اور دھند کو ملانے سے بنا ہے، اس زہریلی فضا سے لوگوں کی صحت خراب ہو رہی ہے، وہ استھما، پھیپھڑوں کے امراض، سانس کی نالی میں انفیکشن، اسٹروک اور امراض قلب میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

صحت اور آلودگی کے حوالے سے دی گلوبل الائنس کے 2019 کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے سالانہ ایک لاکھ اٹھائیس ہزار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

پاکستان میں ہوا کا معیار گزشتہ کچھ عرصہ میں کافی زیادہ گرا ہے؛ فضا میں انتہائی ناقص معیار کے ڈیزل کے ذرات، کھیتوں میں جلائے جانے والے بھوسے اور سردی میں درجہ حرارت کی کمی سموگ کا باعث بن رہی ہے۔ اگرچہ کراچی کی صورتحال بھی کچھ خاص بہتر نہیں مگر گیارہ ملین آبادی کا شہر لاہور مستقل بنیادوں پر دنیا کا سب سے آلودہ شہر ٹھہرا، کچھ برسوں میں رہائشیوں نے ہوا کو صاف کرنے کے لیے خود ائیر پیوریفائرز بنائے ہیں۔

کچھ شہریوں نے حکومت کے خلاف مقدمات بھی درج کروائے لیکن پاکستانی حکام نے کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں کیا اکثر ان کی جانب سے سموگ کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیا جاتا ہے یا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی ری سورسز پینل کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ لاہور میں سموگ کی وجہ میٹرو لوجیکل اور انتھروپوجینک عوامل کا ملنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کی تبدیلی سے فضا میں آلودگی تھم جاتی ہے جس کے ساتھ موسم سرما میں فصلوں کے باقیات جلانے اور دیگر عوامل کے سبب سموگ پھیلتا ہے۔

فضائی آلودگی میں کئی عوامل شامل ہیں جن میں گاڑیوں کا دھواں صنعتی آلودگی فوسل فیول سے چلنے والے پاور پلانٹس، کچرے کا جلانا اور بھٹی مالکان کا کوئلے جلانا وغیرہ شامل ہے۔

ایک غذائی اور زرعی ادارے کی تحقیق میں بجلی کے پیدا کنندگان صنعتوں اور ٹرانسپورٹ شعبے کو سموگ کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا تھا۔ سموگ انسانی، حیواناتی اور نباتاتی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے خصوصاً پھیپھڑوں یا گلے کے امراض سے موت کا خطرہ ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ شدید سموگ سورج کی شعاؤں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کر دیتی ہے جس سے اہم قدرتی عناصر جیسے وٹامن ڈی کی کمی ہونے لگتی ہے جو امراض کا باعث بنتی ہے۔

کسی شہر یا قصبے کو جب سموگ گھیر لیتی ہے تو اس کے اثرات فوری طور پر محسوس ہوتے ہیں، آنکھوں میں خارش، کھانسی، گلے یا سینے میں خراش اور جلدی مسائل سے لے کر نمونیا، نزلہ، زکام اور دیگر جان لیوا پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بن رہا ہے۔

سموگ کی معمولی مقدار میں گھومنا بھی دمہ کے مریضوں کے لیے بہت خطرناک ہے، بوڑھے بچے اور نظام تنفس کے مسائل کا شکار افراد بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

سموگ سے بچاؤ کے لیے کچھ احتیاط کرنا لازمی ہے، باہر گھومنے جائیں تو فیس ماسک کا استعمال کریں اور لینز لگانے کی بجائے عینک کو ترجیح دیں۔

سموگ کے دوران ورزش سے پرہیز کریں خصوصاً دن کے وقت کیونکہ زمین پر اوزون کی سطح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دمہ کے شکار ہیں تو ہر وقت اپنے پاس ان ہیلر رکھیں، اگر حالت اچانک خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

اگر نظام تنفس کے مسائل ہیں تو گنجان آباد علاقوں میں جانے سے گریز کریں، جہاں بہت ٹریفک ہو اور ٹریفک میں پھنسنے کا ڈر ہو تو گاڑی کے شیشے بند رکھیں تاکہ زہریلے دھوئیں سے بچا جا سکے۔ گرم پانی اور چائے کا استعمال زیادہ کریں۔

سگریٹ نوشی ویسے بھی بری عادت ہے لیکن سموگ میں اس سے حتی الامکان بچیں، باہر سے گھر واپسی پر اپنے جسم کے کھلے حصوں کو دھوئیں۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button