لائف سٹائلکالم

حق مہر یا کاروبار؟ نکاح آسان نہیں۔۔!

ڈاکٹر سردار جمال

انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ازدواجی زندگی کا دستور اتنا پرانا ہے جتنا خود انسان قدیم ہے، وہ الگ بات ہے کہ مختلف ادوار میں ازدواجی زندگی یا عائلی زندگی کا طریقہ کار الگ رہا ہے مگر یہ کھلی حقیقت ہے کہ فطرت کے عین مطابق انسان بھی جوڑوں کی شکل میں چلا آ رہا ہے، انسانی یہ جوڑا دو نفوس پر مشتمل رہا یعنی ایک مرد اور دوسری عورت۔

انسانی ارتقاء کے اولین دور میں میاں بیوی کا رشتہ جوڑنے کے لئے عجیب سا عمل کیا جاتا تھا یعنی جب کوئی لڑکا بالغ ہو جاتا تھا تو اس کو بیوی لانے کے لئے والدین سوچتے تھے کہ بیٹے کے لئے رشتہ کہاں سے لایا جائے؟ والدین لڑکی کی تلاش میں جاسوس مقرر کرتے تھے، یہ جاسوس عام طور پر بوڑھی عورت ہوتی تھی، جاسوس بوڑھیاں دوردراز علاقوں میں جاتی تھیں اور پرائے گھروں میں مختلف قسم کے حیلے بہانے بنا کر گھس جاتیں، جس کا مقصد فقط کنواری کی تلاش ہوتا تھا۔

جب بوڑھیوں کو کسی گھر میں لڑکی نظر آتی تو وہ واپس جا کر لڑکے یا لڑکے کے والدین کو اس گھر کے متعلق پوری معلومات دیتیں، اس کے بعد لڑکے کی طرف سے عزیز و اقارب جمع ہو کر لڑکی کے گھر پر حملہ کرتے تھے اور لڑکی کو اٹھا کر لے آتے۔ اب بھی لاشعوری طور لڑکے کی طرف لوگ ”جنج” (بارات) کی شکل میں جاتے ہیں۔ بارات والے اپنے ساتھ اسلحہ لے جاتے ہیں اور خوب ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جو برا عمل سمجھا جاتا ہے، اور برا عمل ہے بھی، مگر انسان کے تمام اعمال جینز سے تعلق رکھتے ہیں جو لاشوری طور پر دہرائے جاتے ہیں۔

مرد اور عورت کا رشتہ اخلاقی بنانے کے لئے مختلف ادوار میں مختلف طریقے وضع کئے گئے، جن میں سے ایک طریقہ یا رواج شرائط کا بھی رہا، پہلے ادوار میں لڑکی کا رشتہ باندھنے سے پہلے لڑکے کے لئے کچھ شرائط یا شرط رکھی جاتی، ان شرائط میں عام طور پر لڑکے کی قد و قامت، بہادری، وجاہت یا پہلوانی وغیرہ شامل تھے لیکن جب انسان مذہب کا پیروکار بن گیا تو مختلف زمانوں کے مذاہب نے انسان کو اچھی سے اچھی اقدار دیں، مذاہب کو اپنانے کے بعد انسانی تاریخ کی پسماندہ اور سخت ترین شرائط آسان بنا دی گئیں اور مرد و عورت کی ازدواجی زندگی کو نکاح کا نام دیا گیا۔

نکاح کی رسم ہر مذہب میں تھوڑی بہت ایک دوسرے سے مختلف رہی لیکن تمام مذاہب میں نکاح کے دوران حق مہر لازمی قرار دیا گیا جس کا مقصد عورت کو مالی سپورٹ دینا تھا۔ چونکہ تمام مذاہب کے نزدیک عورت کی زندگی گھر تک محدود ہوتی ہے اور کمائی کی تمام ذمہ داری مرد پر ڈال دی گئی ہے اس لئے عورت کو مالی طور مستحکم رکھنے کی خاطر اس کو حق مہر کی شکل میں صاحب نصاب بنایا جاتا ہے۔ حق مہر پسوں کی شکل میں، سونے کی شکل میں اور یا جائیداد وغیرہ کی شکل میں مقرر کیا جاتا تھا۔ صاحب استطاعت بندے جتنا بھی چاہتے یا دلہن کی طرف سے جتنا ڈیمانڈ کیا جاتا تو اس میں کوئی حد نہ تھی۔

اسلام کے آنے کے بعد نکاح کی رسم بہت آسان کر دی گئی۔ اس بارے دو باتیں سامنے رکھ دی گئیں؛ اول یہ کہ نکاح کو سنت نبوی صلی اللہ کہا گیا اور دوسری اہم بات یہ کہ رسول صلی اللہ نے ارشاد فرمایا کہ بہترین نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم حق مہر مقرر کیا گیا ہو۔ اسلام کے بعد نکاح کرنا بہت آسان عمل بن گیا جس کے بہت سارے فوائد سامنے آئے: اول یہ کہ جہاں نکاح آسان ہو وہاں شادیاں کی جاتی ہیں، دوم یہ کہ جہاں شادیاں کی جاتی ہیں تو وہاں زنا رک جاتی ہے، دوسری اہم ترین بات یہ کہ جہاں شادیاں آسان ہو جاتی ہیں تو وہاں طلاق آسان ہو جاتا ہے اور جہاں طلاق آسان ہوتا ہے تو وہاں غیرت کے نام پر قتل و غارت اور فیملی کورٹس کے چکروں سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نکاح کرنا ایک عظیم انسانی عمل ہے جو ازدواجی زندگی کے لئے بلند و بالا مقام ہے لیکن جب سے ہم نے رسول اللہ کا فرمان چھوڑا، نکاح سادگی سے نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ حق مہر کو ایک فیشن بنا دیا ہے تو اس دن سے یہ مقدس عمل کاروبار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ نکاح کرتے وقت اپنی توفیق سے زیادہ حق مہر مقرر کیا جاتا ہے، شادی کے چند ماہ بعد لڑکی فیملی کورٹ کا رخ کرتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میرا حق مہر لاکھوں کا نہیں بلکہ کروڑوں کے حساب سے بنتا ہے لہذا اتنی ساری رقم میری زندگی عالی شان بنا سکتی ہے۔ چونکہ فیملی کورٹس عورت کے حق میں جاتی ہیں یہاں تک کہ اگر لڑکی خلع لینا چاہتی ہے تو بھی نت نئے قانون کے تحت حق مہر کی ڈکری (فیصلہ) عورت کے حق میں دی جاتی ہے۔

جب مرد کے خلاف فیصلہ سنایا جاتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ اتنے سارے پیسے لڑکے کے بس کی بات ہوتی نہیں لہذا لڑکے کو جیل کاٹنا پڑتی ہے اور یا دشمنی کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اکثر عورت کے پراسرار قتل میں اس کا حق مہر چھپا ہوتا ہے، وہ ایسے کہ جب شوہر محسوس کرتا ہے کہ میری بیوی میرے ساتھ وقت گزارنا نہیں چاہتی اور اگر شادی ناکام ہوئی تو دوسرے دن مجھے فیملی کورٹ میں کثیر رقم دینا ہو گی جو شوہر کے بس سے باہر ہوتی ہے، بالکل اسی طرح بعض اوقات عورت بھی شوہر کو قتل کرنے پر اتر آتی ہے کیونکہ ایک طرف طلاق لینے کی تہمت سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور دوسری طرف حق مہر اور وراثت میں ملنے والے حصے سے بہت کچھ حاصل کرتی ہے۔

ان تمام مسائل کا واحد حل رسول اللہ کا وہ فرمان ہے کہ کامیاب نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم حق مہر مقرر کیا گیا ہو ورنہ کاروبار اور رشتہ دونوں اکٹھے چلانا ناممکن ہے۔

Sardar Jamal
ڈاکٹر سردار جمال پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہیں لیکن ان کی نظر مریض کے ساتھ ساتھ سماج کے نبض پر بھی ہوتا ہے اور وہ اکثر ملکی اخبارات میں سیاسی و سماجی امراض کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button