قبائلی اضلاع

فاٹا انضمام کے 8 ایسے ثمرات جس نے قبائلی عوام کی زندگی بدل کے رکھ دی

خالدہ نیاز

قبائلی اضلاع کے لوگوں نے ایک لمبا عرصہ بنیادی سہولیات سے محرومی میں اور ایف سی آر قانون کے تحت گزارا ہے تاہم پاکستان مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں ایک تاریخ ساز 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی اضلاع سے ایف سی آر کا خاتمہ کرتے ہوئے ان علاقوں کو خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کردیا گیا۔

فاٹا انضمام کا بل 24 مئی 2018 ء کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے کثرت رائے سے منظور کیا گیا، بعد ازاں 25 آئینی ترمیم کو سینیٹ سے بھی منظور کیا گیا اور 28 مئی  2018 ء کو صدر مملکت کے دستخط کے بعد قبائلی علاقے باضابطہ طور خیبرپختونخوا کا حصہ بن گئے جبکہ ایف سی آر کا قصہ تمام ہوا۔

قبائلی اضلاع کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد ان علاقوں میں 1973 ء کے آئین کا نفاذ ہوگیا ہے اور انضمام کے سلسلے میں قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبے بھی جاری ہیں۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کو قریبا ایک سال بیت گیا ہے اس عرصے میں قبائلی عوام کو انضمام کے ثمرات بھی ملنا شروع ہوئے ہیں جن میں سے چند قابل ذکر یہ ہیں۔

1: خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی

آئینی ترمیم کے تحت انضمام کے بعد حکومت کو ایک سال کے اندر قبائلی اضلاع میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے لئے انتخابات کا انعقاد کرنا تھا۔ قبائلی عوام میں اس لحاظ  سے تشویش پائی جاتی تھی کہ شاید حکومت انتخابات کرانے میں سنجیدہ نہیں ہے تاہم ہفتہ پہلے یعنی 20 جولائی کو قبائلی اضلاع میں خیبرپختونخوا کی 16 نشستوں پرانتخابات ہوئے۔ 16 نشستوں کے لئے 297 امیدوار میدان میں تھے۔ ان نشستوں میں سے 6 پر آزاد امیدواروں، 5 پرپاکستان تحریک انصاف نے، 3 جمیعت علمائے اسلام ف نے اور ایک ایک نشست پر عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی نے کامیابی حاصل کی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے سلسلے میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ایک اہم اقدام سمجھا رہا ہے کیونکہ اب ایم پی ایز قبائلی عوام کے لئے کے پی اسمبلی میں قانون سازی کے علاوہ انکے مسائل کے حل کے لئے بھی آواز اٹھا سکیں گے۔

2: عدالتوں تک رسائی

25 ویں آئینی ترمیم کے بعد فوری طورپر سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار قبائلی اضلاع تک بڑھایا گیا۔ عدالتوں سے پہلے قبائلی اضلاع میں تنازعات کے فیصلے جرگوں کے ذریعے حل کئے جاتے تھے اور عوام کے مطابق جرگوں کے فیصلے اکثر ناانصافی پرمبنی ہوتے تھے تاہم اب قبائلی اضلاع کے عوام بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے رواں سال فروری میں قبائلی اضلاع میں 28 جوڈیشل افسران کی تعنیاتی کے احکامات جاری کئے جن میں 7 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، 7 سینئر سول ججز اور 14 ایڈیشنل اینڈ ڈسٹرکٹ ججز شامل ہیں۔ چند دن پہلے حکومت نے ڈپٹی کمشنرز کو بھی ہدایات کیں کہ دفاتر اپنے متعلقہ اضلاع میں کھولیں تاکہ عوام کو ان سے فوائد مل سکیں۔ حکومت نے جوڈیشل کمپلکسز بھی اپنے متعلقہ علاقوں کو منتقل کرنےکی ہدایات کی ہیں۔

3: صحت انصاف کارڈ کی فراہمی

انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں صحت انصاف کارڈ پروگرام بھی شروع کردیا گیا ہے۔ 4 فروری 2019 کو وزیراعظم عمران خان نے قبائلی اضلاع میں صحت انصاف کارڈ پروگرام کا آغاز اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ صحت انصاف کارڈ کے ذریعے ایک خاندان ایک سال میں 7 لاکھ 20 ہزار تک روپے خرچ کرسکتا ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ضلع خیبر، کرم، باجوڑ، مہمند اور اورکزئی میں صحت انصاف کارڈز تقسیم کئے جاچکے ہیں۔ حکومت کے مطابق قبائلی اضلاع میں 11 لاکھ خاندان صحت انصاف کارڈ سے مستفید ہوں گے اور صحت انصاف کارڈ کے حامل مریض ملک کے 110 ہسپتالوں سے علاج کرواسکتے ہیں۔

4: انصاف روزگار سکیم

خیبرپختونخوا حکومت نے قبائلی اضلاع میں غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے انصاف روزگارسکیم کے نام پر 15 اپریل 2019ء سے قرضوں کا ایک سکیم شروع کیا ہے۔ قرضہ دینے والے خیبربینک کے مطابق یہ قرضہ 18 سے 50 سال تک کے ایسے قبائلی افراد کو دیے جائیں گے جن کے پاس قابل عمل اور منافع بخش کاروبار کے آئیڈیاز موجود ہوں۔ سکیم کے تحت 50 ہزار سے لے کر 10 لاکھ روپے تک قرضے دیے جائیں گے۔ خیبربینک کے مطابق سکیم کے تحت تعلیم یافتہ ہنرمند افراد کو 10 لاکھ، تکنیکی ماہرین کو 5 لاکھ اور باقی کاروبار کرنے والوں کو 3 لاکھ روپے تک قرضے دیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں حکومت نے اس سکیم کے لئے ایک ارب روپے تک کا فنڈ مختص کیا ہے۔

5: آر ٹی آئی ایکٹ

خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد صوبائی حکومت نے 19 اپریل 2019ء کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کو قبائلی اضلاع تک توسیع دے دی۔ اس سلسلے میں محکمہ اطلاعات نے ایک مراسلے کے ذریعے قبائلی اضلاع میں موجود تمام سرکاری اداروں کو تاکید کی کہ آر ٹی آئی کے نفاذ کے سلسلے میں سب سے پہلے ہر ڈپارٹمنٹ میں پبلک انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) کی نامزدگی یقینی بنائیں تاکہ شہری معلومات حاصل کرنے کیلئے ان سے رجوع کرسکیں۔

6: پولیس نظام

خیبرپختونخوا میں انضمام سے قبل قبائلی اضلاع میں خدمات انجام دینے والے 28 ہزار کے قریب خاصہ دار اور لیویز فورس اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ انضمام کے بعد کہیں نوکری سے ہاتھ نہ دھونا پڑے اور یہ کہ انضمام کے بعد انکا مستقبل کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں انہوں نے جمرود میں 20 روزہ دھرنا بھی دیا تھا۔ انضمام کے بعد 8 اپریل 2019ء کو خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے لیویز اور خاصہ داراہلکاروں کوپولیس میں ضم کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد ان اضلاع میں باقاعدہ طور پرپولیس تھانے بھی بننا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت کے مطابق لیویز اور خاصہ دار فورس کو کے پی پولیس کے طرز پرتنخواہیں اور دیگرمراعات دی جائیں گی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے نوٹی فکیشن کے مطابق اس کام کے لیے 6 ماہ کا وقت دیا گیا ہے اور یہ انضمام رواں سال اکتوبر تک مکمل ہوگا۔ پولیس نظام کے ساتھ قبائلی اضلاع میں اب ایف آئی آر کا اندراج بھی ہوتا ہے۔

7: کے پی ایمپیکٹ چیلنج پروگرام

خیبرپختونخوا حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ کے دوران کے پی ایمپیکٹ چیلنج پروگرام قبائلی اضلاع میں بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو باقی اضلاع میں پچھلے دو سال سے شروع ہے۔ کے پی ایمپیکٹ چیلنج پروگرام میں صوبائی حکومت ان بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کو 2 سے 20 لاکھ روپے تک کا گرانٹ دے گی جن کے پاس نئے کاروبار کے لئے آئیڈیاز موجود ہوں۔ صوبائی حکومت کے مطابق رواں سال قبائلی نوجوانوں کے لئے بجٹ میں 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس میں کے پی ایمپیکٹ چیلنج بھی شامل ہے۔ اس گرانٹ سے بہت سارے قبائلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کاروبار کے لئے مالی امداد ہاتھ آجائے گی۔

8: 26 ویں آئینی ترمیم

قبائلی اضلاع کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے متعلق 26ویں آئینی ترمیمی بل 13 مئی 2019ء کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

26 ویں آئینی ترمیمی بل کو 278 ووٹوں سے منظور کیا گیا جب کہ کسی بھی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی، ترمیمی بل کی منظوری کے بعد قبائلی اضلاع کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں 6 سے بڑھ کر12 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں 16 سے بڑھ کر 24 ہوجائیں گی۔ یہ بل ابھی تک سینیٹ سے پاس نہیں کیا جاسکا تاہم سینیٹ سے پاس ہونے کی صورت میں اسمبلیوں میں قبائلی عوام کی نمائندگی بڑھ جائے گی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام سے پہلے 26 ویں آئینی ترمیمی بل کا اسمبلی میں آنا اور پاس ہونا ناممکن تھا۔

مذکورہ بالا ثمرات کے علاوہ خیبرپختوںخوا میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بھی حکومت کام کررہی ہے اور اس کے علاوہ حکومت نے قبائلی اضلاع کے 25 سب ڈویژن میں کھیل کے میدان بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button