،،قبائلی اضلاع میں انتخابات 18 مہینوں کے اندر اندر کروائیں جائیں گے،،

افتخار خان
ایک طرف قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات کی تیاریاں جاری ہے تو دوسری جانب قبائلی عوام سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد میں تشویش پائی جاتی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد کہیں انتخابات بہت دور نہ چلے جائیں۔
اس حوالے سے وفاقی مذہبی وزیر پیر نور الحق قادری کوآرڈینیٹر عامرخان آفریدی نے کہا ہے قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات میں زیادہ تاخیر نہیں کی جائے گی۔
ٹی این این کے پروگرام بدلون کے پینل ڈسکشن میں عامر خان آفریدی کا کہنا تھا کہ،، آئینی ترمیم کے باوجود قبائلی اضلاع میں انتخابات 18 مہینے کے اندر اندر کروائے جائیں گے یعنی 25 جولائی 2018 کے بعد 18 مہیںوں میں انتخابات ہونگے۔
انہوں نے کہا چند دن پہلے اسلام آباد پارلیمنٹ لاجز میں محسن داوڑ اور علی وزیر سمیت مختلف پارٹیوں کے نمائندہ گان اجلاس کے دوران اس بات پرمتفق ہوگئے کہ فاٹا انضمام کے بعد 18 مہیںوں میں قبائلی اضلاع میں انتخابات کا انعقاد ہوگا۔
پینل ڈسکشن میں موجود ٹرائبل یوتھ موومنٹ کے نائب صدر ادریس خان نے اس حوالے سے کہا کہ پہلے انکے بھی تحفظات تھے کہ ایسا نہ ہو کہ انتخابات زیادہ دیر تک ملتوی ہوجائے تاہم 26 ویں آئینی ترمیم میں بھی کہا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع میں انتخابات انضمام کے بعد 18 مہینوں کے اندر اندر کروائیں جائیں گے۔
ادریس خان نے مزید کہا ،، بل میں تو کہا گیا ہے کہ انتخابات 18 مہینوں کے اندر کروائیں جائے گے تاہم مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا کیونکہ حکومت ایک طرف تو معاشی مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے تو دوسری جانب 26 ویں آئینی ترمیم بھی ابھی صرف قومی اسمبلی سے پاس ہوئی ہے، ابھی سینیٹ سے پاس نہیں ہوئی اور اس کے بعد منظوری کے لیے صدر پاکستان کے پاس بھی جائے گا اور سیٹس زیادہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو قبائلی اضلاع میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں بھی کرنا ہوگی،،
پینل ڈسکشن میں قبائلی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی شاہدہ شاہ بھی موجود تھی، انہوں نے قبائلی اضلاع میں انتخابات کے تاخیر کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات کچھ وقت کے لیے ملتوی ہوجائے تو اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ قبائلی اضلاع کی خواتین انتخابات کے متعلق شعور نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،، قبائلی اضلاع کی خواتین ایف سی آر سے آشنا ہیں تاہم وہ جمہوریت سے بالکل بے خبر ہیں، جب انتخابات کی بات شروع ہوئی تو قبائلی اضلاع سے مجھے خواتین نے شکایات بھیجنا شروع کی کہ ہم کہاں جائیں، فارمز کہاں سے لیں، الیکشن کمیشن کہاں پہ ہے؟ انہوں نے مجھ سے کہا ہم ووٹ ڈالنا چاہتی ہے اور انتخابات میں بھی حصہ لینا چاہتی ہیں لیکن پہلے ہمیں سمجھایا جائے،،
ایک سوال کے جواب میں عامر خان آفریدی نے کہا یہ بل الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے اعلان سے بھی پہلے منظور کروایا جا سکتا تھا تاہم اس وقت سیاسی پارٹیوں نے ساتھ نہ دیا اور اب انکی مدد کی وجہ سے 26 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس آئینی ترمیم کی وجہ سے قبائلی عوام کے زیادہ تر مسائل حل ہوجائیں گے۔
دوسری جانب ادریس خان نے کہا کہ 25 ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ایک سال کے اندر قبائلی اضلاع میں انتخابات کروائے جائیں گے تو حکومت کو چاہیئے تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم انتخابات کے اعلان سے پہلے اسمبلی سے منظور کروالی جاتی۔
انہوں نے کہا،، 25 ویں آئینی ترمیم میں بھی عجلت سے کام لیا گیا اگر اس میں عجلت سے کام نہ لیا ہوتا تو 26 ویں آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں پڑتی اور 25 ویں آئینی ترمیم میں ہی قبائلی اضلاع کی سیٹوں میں اضافہ ہوجاتا،،
ادریس خان نے یہ بھی کہا کہ بہرحال وہ اب بھی خوش ہیں کہ قبائلی اضلاع کی سیٹوں میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن حکومت کو چایئے کہ انتخابات کو مزید طول نہ دیں کیونکہ اس میں قبائلی عوام کا بہت نقصان ہے۔
شاہدہ شاہ نے کہا قبائلی خواتین بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہے،، مجھے بہت ساری خواتین نے نام بھیجے ہیں کہ وہ بھی انتخابات لڑنا چاہتی ہے تو مجھے تو امید ہے کہ اگر قبائلی اضلاع میں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو وہاں کی خواتین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی، دوسری بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی ہر پارٹی کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ جنرل نشستوں پر 5 فیصد خواتین کو ٹکٹ دینا لازمی ہے اور اس کے علاوہ جس حلقے میں 10 فیصد خواتین تک کا ووٹ کاسٹ نہ ہو تو وہ انتخابات کالعدم قرار دیئے جائیں گے تو یہ بھی ایک اچھی تبدیلی ہے،،
ایک سوال کے جواب میں عامرخان آفریدی نے کہا کہ جون میں بجٹ پیش ہوگا اور انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے ترقیاتی کاموں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ اس میں اور بھی تیزی آئے گی۔
ادریس خان نے کہ وہ ایک مہینہ انتظار کریں گے اگر 26 ویں آئینی ترمیم جلد از جلد سینیٹ سے پاس نہ کیا گیا تو ہم اس کے خلاف احتجاج شروع کریں گے جسطرح ہم نے فاٹا انضمام کے لیے احتجاجی تحریکیں چلائی ہے۔
کیا قبائلی اضلاع میں خواتین مردوں کی طرح انتخابی مہم چلا پائیں گی؟ اس سوال کے جواب میں شاہدہ شاہ نے کہا کہ جن امیدواروں کے ساتھ پارٹی کی مدد ہے تو وہ کسی حد تک کامیاب ہوجائے گی البتہ جو آزاد امیدوار ہونگی انکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ قبائلی اضلاع میں پہلی بار انتخابات ہونے جارہے ہیں اور یہ پہلا تجربہ ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگوں میں اس حوالے سے شعور بھی نہیں ہے کہ خواتین بھی ووٹ ڈالیں گی اور انتخابات لڑیں گی۔
خیال رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیمی بل 13 مئی کو قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل کو 278 ووٹوں سے منظور کیا گیا جب کہ کسی بھی رکن نے بل کی مخالفت نہیں کی، ترمیمی بل کی منظوری کے بعد فاٹا کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں 6 سے بڑھ کر 12 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں 16 سے بڑھ کر 24 ہوجائیں گی۔