وزیرستان، پولیو مہم سے انکار کی روایت برقرار، قبائل کا اپنے مطالبات ماننے تک مہم سے بائیکاٹ کا اعلان
تحصیل شیوا میسمون خیل کریڑہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پندرہ سال قبل تعمیر کیا گیا ٹیوب ویل تاحال غیر فعال ہے اور علاقے کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں،

جنوبی اور شمالی وزیرستان میں لوگوں نے پولیو مہم سے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے اور اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکا ر کیا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے علاقے خوجل خیل کے عوام ڈھول کی تھاپ پر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور پولیو کو بطور ہتھیار استعمال کرکے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات پیش کئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ ان کے مسائل میں دلچسپی نہیں لیتے۔ احتجاج کی اطلاع ملنے پر آسسٹنٹ کمشنر وانا اور ضلعی ہیلتھ آفیسر موقع پر پہنچ کر مظاہرین کیساتھ مذکرات کررہے ہیں۔
دوسری جانب تحصیل شیوا میسمون خیل کریڑہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پندرہ سال قبل تعمیر کیا گیا ٹیوب ویل تاحال غیر فعال ہے اور علاقے کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، پانی کی عدم دستیابی کے باعث علاقے کے لوگوں نے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔
علاقے کے ایک بزرگ نورمحمد سیفلی کابل خیل کا کہنا ہے کہ پانی کی عدم دستیابی کے خلاف غیر معینہ مدت تک پولیو مہم سے بائیکاٹ رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ نے مذکورہ ٹیوب ویل کے لئے سولر سسٹم بھی فراہم کیا ہے لیکن اس کے باجود بھی ٹیوب ویل چالو نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیون ویل کی تعمیر کے وقت حکومت نے پانی کی ایک ٹینکی بھی بنائی تھی لیکن غیر معیاری سریا استعمال کرنے کی وجہ سے ٹینکی اب ٹھوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
انہوں نے جب تک ٹیوب ویل چالو نہیں کیا جاتا پولیو مہم سے بائیکاٹ جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ قبائلی اضلاع میں آج یعنی پیر سے تین روزہ انسداد پولیو مہم شورع ہے۔
تین روزہ پولیو مہم بارہ نومبر سے چودہ نومبر تک جاری رہیگی، پولیو ٹیمیں متعلقہ ضلعی ہیلتھ آفیسر، ڈپٹی کمشنر اور سیکیورٹی فورسز کے دستوں سے زیر نگرانی اپنے فرائض سر انجام دینگے۔ ان سات قبائلی اضلاع میں پانچ سال سے کم 896205 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائینگے جس میں 4084 پولیو ٹیمیں، 3777 موبائل ٹیمیں، 215 فکسڈ ٹیمیں اور 92 ٹرانسٹ ٹیمیں حصہ لے رہے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ فاٹا اور خیبر پختون خواہ کے بعض دیگر علاقوں میں بھی والدین اپنے مطالبات منوانے کے لئے پولیو سے انکار کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔
اس طرح کے واقعات کافی عرصے سے پیش آ رہے ہیں لیکن سب سے پرانا اور قابل ذکر واقعہ فروری 2016 میں قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی کی تحصیل خار میں پیش آیا جہاں والدین نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران دھمکی دی کہ اگر انہیں اس سے چھٹکارا نہ دلایا گیا تو وہ اپنے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلوائیں گے۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اس طرح کی دھمکیاں لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے والدین اکثر دیتے آ رہے ہیں لیکن ماہرین کے خیال میں یہ ایک غلط رجحان ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کا پوچھنا ہے کہ بنیادی سہولیات کی فراہمی یقیناٰ حکومت کی ذمہ داری لیکن اسکی آڑ میں پولیو سے بائیکاٹ اور دوسری نسل کو پولیو کے خطرے سے دوچار کرنا کہاں کی عقل مندی ہے