ڈرائیونگ لائسنس کا حصول قبائلی عوام کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
قبائلی ڈرائیور حضرات کی جانب سے یہ شکایت عام سننے کو ملتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع خصوصاَ کوہاٹ میں جب وہ اپنا لائسنس بنوانے جاتے ہیں تو ان سے بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے۔

سٹیزن جرنلسٹ بخت زمین سے
سابقہ فاٹا کے ڈرائیور صاحبان کو جو عام شکایات ہیں ان میں سے ایک ڈرائیونگ لائسنس کا اجراء بھی ہے کہ قبائلی اضلاع میں سرے سے آر ٹی اے (ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی) دفاتر ہیں ہی نہیں جبکہ دوسری جانب لائسنس نہ ہو تو خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کی پولیس بھاری جرمانے عائد کرتی ہے۔
اوپر سے قبائلی ڈرائیور جب ڈویژنل ہیدکوارٹر میں آر ٹی اے کے کسی دفتر جاتے ہیں تو وہاں انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔
دوسری جانب قبائلی ڈرائیور حضرات کی جانب سے یہ شکایت بھی عام سننے کو ملتی ہے کہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع خصوصاَ کوہاٹ میں جب وہ اپنا لائسنس بنوانے جاتے ہیں تو ان سے بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے۔
آر ٹی اے کوہاٹ کے دفتر کے ایک صاحب تو اس حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں جہاں لائسنس کے حصول کیلئے درخواست گزار کو یا تو مبلغ دس ہزار کی رقم سے صاحب کی ہتھیلی گرم کرنا پڑتی ہے اور یا پھر تگڑی سفارش جو ظاہر ہے یہ ہر عام و غریب بندے کے بس کی بات کہاں ہوتی ہے۔
بنابریں علاقہ کے ڈرائیوروں کا مطالبہ ہے کہ یا تو آر ٹی اے کی قبائلی علاقوں تک توسیع تک انہیں لائسنس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور یا پھر ان کیلئے سہولیات اور آسانیاں پیدا کی جائیں کہ ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کیلئے مختلف دفاتر اور اضلاع کے چکر لگانا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔
ان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ حکومت تمام آر ٹی اے دفاتر کو ہدایات جاری کرے کہ قبائلی عوام کیلئے ہر ممکن سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور جو ار ٹی اے آفس انہین قریب و آسان پرتا ہو وہاں سے ان کیلئے لائسنس جاری کیے جائیں تاکہ کرپشن اور بدعنوانیوں کی روک تھا ممکن اور قانونی تقاضے پوری کرنا یقینی بنایا جاسکے۔