قبائلی اضلاع

جنوبی وزیرستان، لدھا گرلز ڈگری کالج تاحال فعال نہ ہوسکا، سینکڑوں لڑکیاں تعلیم سے محروم

لدھا تحصیل کی رہائشی خاتون رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ یہ کالج 2016 میں قائم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس کالج میں فی میل لیکچرار کی تقرریاں نہیں ہوسکیں حالانکہ اسی علاقے میں سینکڑوں تعلیم یافتہ لڑکیاں موجود ہیں جو اسی ملازمت کے لئے اہل ہیں

سیٹیزن جرنلسٹ کامران اطلس

شدت پسندی سے متاٗثرہ علاقے جنوبی وزیرستان کے تحصیل لدھا میں قائم گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج تاحال فعال نہ ہوسکا، کالج میں ابھی تک خواتین لیکچرارز کی تقرریاں عمل میں نہیں آئی ہیں۔

سٹیزن جرنلسٹ کامران اطلس سے بات چیت کرتے ہوئے لدھا تحصیل کی رہائشی خاتون رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ یہ کالج 2016 میں قائم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس کالج میں فی میل لیکچرار کی تقرریاں نہیں ہوسکیں حالانکہ اسی علاقے میں سینکڑوں تعلیم یافتہ لڑکیاں موجود ہیں جو اسی ملازمت کے لئے اہل ہیں۔

رضیہ محسود کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود گومل یونیورسٹی سے اردو زبان میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے اور تعلیم سے متعلق مختلف پیشہ وارانہ کورسس اور سرٹیفیکیٹس بھی حاصل کئے ہیں لیکن سالوں مہاجرت کی زندگی گزرانے کے جب اپنے وطن واپس لوٹی تو یہاں پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور کئی عرصے سے وہ بے روزگار ہیں۔

ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکے علاقے کی بڑی بدقسمتی ہے کہ اتنی خطیر لاگت سے لڑکیوں کے لئے قائم ہونیوالی کالج میں ابھی تک سٹاف کی تقرریاں نہ ہوسکیں، ایک جانب اس پہاڑی اور دور افتادہ علاقے کی لڑکیاں تعلیم کی زیور سے محروم ہوتی جارہی ہیں اور دوسری جانب مہاجرت کے زمانے میں یہاں کی لڑکیوں نے دوسرے شہروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہیں اور اب انکو یہاں پر روزگار بھی نہیں مل پا رہا ہے،

انہوں نے کہا کہ یہاں کی تعلیم یافتہ لڑکیاں ایک جرگہ تشکیل دی گی جو لدھا تحصیل میں لڑکیوں کے لئے قائم تعلیمی اداروں کی بحالی کے متعلق حکومت سے بات چیت کریگی اور اپنی جائز حقوق اور روزگار کے حصول کے لئے جدوجہد کریگی۔

کالج میں ڈیوٹی پر مامور چوکیدار بخمالی کا کہنا تھا کہ 2016 میں یہ کالج قائم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس  کالج میں طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لئے نہیں ائی ہیں اور نہ ہی خواتین سٹاف کی تقرری عمل میں آئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قریبی فاصلے پر لڑکوں کا ڈگری کالج واقع ہے اور جب وہاں پر تعداد زیادہ ہوتی ہے تو لڑکے کلاسیں لینے کے لئے یہاں پر منتقل کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان میں 2009 کے دوران شدت پسندوں کے خلاف اپریشن راہ نجات شورع کیا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں مقامی لوگوں نے گھر بار چھوڑ کر ملحقہ شہروں میں پناہ لے لی۔ مہاجرت کے دوران ان گھرانوں کی اکثر لڑکیوں نے بھی پہلی بار سکول اور کالجوں کا رخ کرلیا حتیٰ کہ بعض لڑکیوں نے مختلف یونیورسٹیوں سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کیں۔ اب زیادہ تر وزیارستان کے گھرانے واپس اپنے علاقوں کو جاچکے ہیں جہاں پر دیگر سہولیات کی کمی کے علاوہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے روزگار کا بھی ایک سیگین مسئلہ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button