قبائلی اضلاع

قبائلی نوجوانوں کی محرومی کا اصل باعث کوٹہ سسٹم کا ناجائز استعمال

خیبرپختونخوا کی نوجوان نسل کو درپیش یہ ایک سنگین مسئلہ ہے وفاقی حکومت کو جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بخت زمین

سابقہ قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کیلئے مختص کوٹہ سسٹم کا بندوبستی علاقوں کے لوگوں کے ہاتھوں ناجائز استعمال میرٹ کی سریح خلاف ورزی پر منتج ہوا ہے جس کی وجہ سے مستحق امیدوار سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے اور سرکاری ملازمتوں سے محروم ہیں۔

خیبرپختونخوا کی نوجوان نسل کو درپیش یہ ایک سنگین مسئلہ ہے وفاقی حکومت کو جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے پسماندہ علاقوں کیلئے کوٹہ سسٹم شروع اس لیے کیا گیا تھا تاکہ اپنی اہلیت کے مطابق معیاری تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ان کا حصہ یقینی بنایا جائے اور ان میں کسی بھی طرح کا احساس محرومی پیدا نہ ہو۔

بدقسمتی سے اس وقت مختلف تعلیمی اداروں میں ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں سابقہ فاٹا کیلئے میرٹ نہایت ہی اونچا ہے۔

مثال کے طور پر سابقہ فاٹا کو زون ون میں رکھا گیا ہے جو سات قبائلی اضلاع اور چھ ایف آرز پر مشتمل ہے جو تقریباَ 13 اضلاع بنتے ہیں جو بڑی آبادی کا حامل ایک وسیع علاقہ بنتا ہے۔

اب المیہ یہ ہے کہ ملحقہ بندوبستہ علاقوں کے رہائشیوں نے دو دو ڈومیسائل بنا رکھے ہیں، ایک قبائلی تو دوسرا اپنے متعلقہ ضلع کا، بنوں کے تقریباَ تمام نوجوانوں نے ایک ڈومیسائل ایف ار بنوں کا بھی بنوا رکھا ہے۔

یہی حال ٹل اور ہنگو اور یا پھر مردان، چارسدہ اور شیرگڑھ وغیرہ علاقوں کے نوجوانوں کا بھی ہے جنہوں نے کرم یا پھر مہمند اور باجوڑ کے ڈومیسائل حاصل کر رکھے ہیں۔

ان نوجوانوں نے پسماندہ علاقوں کے ڈومیسائل تو بنوا رکھے ہیں لیکن ملازمت ملنے پر کبھی وہاں پر خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اپنے متعلقہ ضلع یا قصبے کو اپنا تبادلہ کروانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں جو پسماندہ علاقوں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔

سابقہ فاٹا میں آباد اقلیتوں کو، جو ڈومیسائل بی کے حقدار ہوتے ہیں، یہی ڈومیسائل دینا چاہیے کہ آئین پاکستان تمام شہریوں کے مساوی حقوق پر زور دیتا ہے۔

اس مسئلے کو ڈومیسائل کی کمپیوٹرائزیشن یا پھر کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ میں درج مستقل پتے کی بنیاد پر ڈومیسائل کے اجراء سے بہ آسانی حل کیا جا سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button