قبائلی اضلاع

"چائے کے ہوٹل سے قومی اسمبلی تک” ایک باغی کا حیرت انگیز سفر

گل ظفر خان باغی ایک ایسا کردار ہے جس کی ناقابل یقین واقعات اور حقائق سے بھری زندگی اور سیاست صرف اور صرف عوام کے گرد گھومتی ہے۔

محمد بلال یاسر

ہر پڑھا لکھا اور باجوڑ کی سیاست کی تھوڑی بہت خبر رکھنے والا فرد آج کل اس سوچ و فکر میں مبتلا ہے کہ آخر وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل نام نہاد اشرافیہ کے گرد گھومتی ہوئی باجوڑ کی سیاست میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک غریب شخص نے کیسے جگہ بنا لی۔

گل ظفر خان باغی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے مسلسل دوسری بار اس نوجوان پر اعتماد کیا اور اب کی بار اس نے بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی جس کی مثال پاکستانی سیاست میں نہیں ملتی۔

گل ظفر خان باغی نے جس قبیلے میں آنکھ کھولی وہ تعلیم سے ناآشنا تھا اور اب بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس قبیلے کے اکثر لوگ جرائم میں ملوث رہتے ہیں ، خونریزی، قتل مقاتلے کا سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اور شاید اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ گل ظفر خان باغی بھی ڈر اور خوف سے آزاد انسان ہے رسک لینا اور خطروں سے کھیلنا جس کی جبلت اور طبیعت کا حصہ بن گئی۔

گل ظفر خان 1977 کو ضلع باجوڑ کی تحصیل واڑہ ماموند کے پاک افغان بارڈر پر واقع برگٹکی گاؤں میں اصلت خان کے گھر پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری سکول سے حاصل کی لیکن غربت اور دیگر وجوہات کے باعث تعلیم چھوڑ کر گھر کا چولھا جلانے میں والد کا ہاٹھ بٹانے کیلئے علاقے کے دیگر لڑکوں کی طرح ملک کے مختلف شہروں کا رُخ کیا۔

کم عمری ہی میں پہلی بار کراچی کیلئے رخت سفر باندھا اور وہاں کے مشہور مقام ٹاور کے قریب ٹھیلے پر بھٹے بیچنا شروع کردیا۔

بچپن ہی سے نہایت زیرک اور اجتماعی سوچ اور اجتماعی مسائل میں دلچسپی لینے والے گل ظفر خان باغی نے کراچی میں باجوڑ ی اور عام پختون کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے مظالم دیکھ کر ان کی روک تھام کیلئے عامر خان کی قائم کردہ تنظیم مہاجر قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ مہاجر قومی موومنٹ کے ساتھ 1990سے لیکر 1994 تک رفاقت رہی، محنت مزدوری کے ساتھ کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلئے اس تنظیم کے ساتھ جُڑے رہے۔

بعد ازاں کراچی کو ہمیشہ کیلئے خیرآباد کہہ کر راولپنڈی میں محنت مزدوری شروع کی۔ راولپنڈی میں گل ظفر خان نے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں کام شروع کیے ہوٹل کے بیرے سے لیکر چائے پکانے تک ہر قسم کی مزدوری کرتے رہے۔جنگل کے قوانین زدہ معاشروں میں طاقت بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور صحافت بھی طاقت کے حصول میں ممد و معاون ہے20 سال کی عمر میں گل ظفر خان نے راولپنڈی میں لوکل اخبارات کے ساتھ رپورٹنگ اور سی این این آئی نیوز ایجنسی کے ساتھ بطور کرائم رپورٹر منسلک ہوگئے ،دیکھتے ہی دیکھتے گل ظفر راولپنڈی میں سرکاری و غیر سرکاری کرپٹ مافیا کیلئے درد سر بن گیا۔

گل ظفر خان کے مطابق 1996 میں ایک کام کے سلسلے میں وہ لاہور گئے جہاں ان کی ملاقات عمران خان سے ہوئی اور پہلی ملاقات میں ہی عمران خان کے وژن اور عوامی فلاحی سوچ سے متاثر ہوکر ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔

مقامی ہوٹل میں ویٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے لیے عملی سیاست کا آغاز کردیا۔

اپنے کام سے فراغت کے کے بعد یا چھٹی کے دن گل ظفر خان کا کام پی ٹی آئی کی تنظیم سازی ، کارنر میٹنگز اور عمران خان کا پیغام گھر گھر پہنچانا ہوتا تھا۔2010

میں گل ظفر خان مستقل طور پر راولپنڈی سے باجوڑ منتقل ہوگئےجہاں دیکھتے ہی دیکھتے وہ سرکاری و غیر سرکاری کرپٹ مافیا اور خوانین کے گلے کا پھندہ بن گئے۔

اس معمولی سے نوجوان نے باجوڑ کے سیاسی وڈیروں، جاگیرداروں اور مقتدر حلقوں کے کالے کرتوت اور سرکاری افسران کی کرپشن کی داستانیں سرعام تقاریر اور عوامی مجالس میں بیان کرنا شروع کیں۔

محنت مزدوری کیلئے مختص وقت جلسے جلوسوں، کارنر میٹنگز اور تنظیم سازی پر مرکوز کرنے کی وجہ سے معاش کے مسائل روز بروز سر اٹھا رہے تھے لیکن اس دوران ان کے قریبی ساتھیوں خصوصاَ شیر آغا نے مالی خدمات پیش کردیں تھیں یوں غمِ روزگار سے آزاد ہو کر وقت کے فرعونوں سے نبرد آزما ہونے کی انہیں مکمل فرصت میسر آئی۔

انہی دنوں باجوڑ میں پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کی باقاعدہ طور پر تنظیم سازی عمل میں لائی گئی اور گل ظفر یوتھ صدر اور جنرل سیکرٹری کے عہدوں سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے علاقائی چیف آرگنائزر بنے۔

یہیں سے ان کی سیاست کے کامیاب سفر کا آغاز ہوا جس کے بعد اس باغی نے انتظامیہ اور خوانین کے منظور نظر ملکان کو ناکوں چنے چبوائے۔

2013 الیکشن میں پی ٹی آئی باجوڑ میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھری اسی لیے پارٹی ٹکٹ پر مالی اعتبار سے بہت سے اچھے اچھوں کی نطریں تھیں تاہم عمران خان نے تمام امیدواروں کو نظرانداز کرتے ہوئے گل ظفر خان باغی کو ٹکٹ جاری کیا یوں وہ اپنے علاقے سے نہایت کم عمر امیدوار بنے۔

الیکشن میں اپنے سے کئی گناہ مضبوط دو سابقہ ایم این ایز اور اس وقت کے خیبرپختونخوا کے گورنر انجنیئر شوکت اللہ خان کے والد اور سابقہ ایم این اے حاجی بسم اللہ خان کے ساتھ بھرپور مقابلہ کیا اور تیسرے نمبر پر رہتے ہوئے 6948 ووٹ حاصل کیے تاہم یہ ناکامی باغی کے سفر میں مزید جوش وجذبے کا سبب بنی۔

اسی دن سے انہوں مزید محنت شروع کی اور اگلے الیکشن کی تیاری میں جت گئے جس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی کے سینکڑوں جلسے ، میٹنگز اور ریلیاں منعقد کرنے کے علاوہ تنظیم سازی میں بھرپور کوشش کی۔

درایں اثناء ان کے اپنے کچھ ساتھی بھی ان کے خلاف ہوگئے لیکن گل ظفر نے ان باتوں کی پرواہ نہیں کی اور اپنا سفر جاری رکھا۔

2018 الیکشن میں پی ٹی آئی کے ملک کی صف اول کی پارٹی بن جانے کے باعث پارٹی ٹکٹ کا حصول نہایت مشکل کام تھا لیکن اس بار بھی عمران کی نظر انتخاب انہی پر آکر ٹھہری۔

الیکشن 2018 میں بھی ان کے مقابلے میں دو سابقہ ایم این ایز شہاب الدین اور اخونزادہ چٹان کے علاوہ علاقائی ملکان بھی امیدوار تھے لیکن گل ظفر خان نے پولنگ سٹیشن پر بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔

26 جولائی کی صبح ہوٹل کے اس ویٹر کیلئے ایک نئی کرن اور خوشخبری لیکر طلوع ہوئی جو 22730 ووٹ لیکر ایم این اے بننے کا اعزاز حاصل کرچکا تھا، انہوں نے رنر اپ کو 8 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دیدی۔

گل ظفر خان کے نام کے ساتھ باغی کا لاحقہ اب ان کی پہچان بن چکا ہے بلکہ اب تو علاقے کا بچہ بچہ اپنے نام کے ساتھ باغی کا لاحقہ لگانے کا خواہشمند ہے۔

باغی کے پس منظر سے پردہ اٹھاتے ہوئے گل ظفر خان کہتے ہیں کہ ان کے ماموں ملک فضل معبود آف لنڈئی کگہ ماموند پولیٹیکل ایڈمینسٹریشن میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے پولیٹیکل انتظامیہ سے جن کی مراعات بہت زیادہ تھیں۔

کہتے ہیں کہ ہم ایک گھر میں رہتے تھے وہ ایف سی آر کے پکے حمایتی اور میں ایف سی آر کا سب سے بڑا دشمن تھا لہذا اپنے گھر سے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے ماموں ملک فضل معبود سے ایک دن کہا کہ میں اس نظام ایف سی آر سے باغی ہوں۔

بقول ان کے بعد ازاں یہ بغاوت انہیں مہنگی بھی پڑ گئی کہ مقامی پولیٹیکل انتظامیہ اور ایف سی آر کے حمایتی ملکان کی جانب سے انہیں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ نے انہیں سرخرو کیا اور بالآخر ظلم کا نظام ایف سی آر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہوگیا۔

گل ظفر خان باغی کو جو بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ غریب، مزدور، کسان اور محروم سمجھے جانے والے طبقے کی آواز بن کر اور ظلم و جبر کی قوتوں کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بن کر ابھرا ہے۔

المختصر یہ کہ گل ظفر خان باغی ایک ایسا کردار ہے جس کی ناقابل یقین واقعات اور حقائق سے بھری زندگی اور سیاست صرف اور صرف عوام کے گرد گھومتی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button