قبائلی اضلاع

اصلاحات کے نفاذ میں غیرضروری تاخیر پورے عمل کیلئے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ شرکاء فاٹا کانفرنس

شرکاء کے مطابق حال ہی میں تشکیل کردہ ٹاسک فورس وزیراعلی خیبرپختونخوا سے اختیارات چھیننے کے مترادف ہے جو وفاق سے فاٹا کی ڈوریاں ہلانے کی روایت زندہ رکھنے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے اپنائے گئے ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔

پشاور میں فاٹا اصلاحاتی عمل کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس کے شرکاء نے حکومت پر زور دیا ہے کہ اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ کے حوالے سے حکمت عملی واضح کی جائے کہ غیرضروری تاخیر اس پورے عمل کیلئے مہلک ثابت ہو  سکتی ہے۔

گزشتہ روز پشاور میں سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی (سی آر ایس ایس) کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں اراکین پارلیمان، تعلیم، قانون، کاروبار سے وابستہ افراد کے علاوہ خواتین اور یوتھ فورمز کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔

اس موقع پر قبائلی اضلاع میں پیدا ہونے والی بعد از 25 ویں آئینی ترمیم کی صورتحال پر سیرحاصل روشنی ڈالی گئی اور شرکاء کی جانب سے مختلف آراء اور تجاویز پیش کی گئیں۔

کانفرنس میں شریک سابق رکن قومی اسمبلی اور ممتاز قانون دان لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ سابقہ فاٹا میں جان و املاک کو پہنچنے والے شدید نقصان کو مدنطر رکھتے ہوئے حکومت قبائلی عوام کی ازسر نو آبادکاری اور جس ذہنی صدمے سے وہ گزرے ہیں اس سے انہیں نکالنے کیلئے خاطر خواہ پیکج کا  اعلان کرے۔

اس مقصد کیلئے انہوں نے قومی مالیاتی کمیشن میں فٹا کیلئے مجوزہ 3 فیصد حصے کو 5 سے 6 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی۔

شرکاء کے مطابق حال ہی میں تشکیل کردہ ٹاسک فورس وزیراعلی خیبرپختونخوا سے اختیارات چھیننے کے مترادف ہے جو وفاق سے فاٹا کی ڈوریاں ہلانے کی روایت زندہ رکھنے کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے اپنائے گئے ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹاسک فورس میں انضمام مخالف عناصر کی شمولیت اس سنجیدہ مسئلے کی جانب حکومت کی غیرسنجیدگی کی عکاس ہے۔

شرکاء کے خیال میں محولہ بالا اقدام سے ٹاسک فورس کی ساکھ پر یقیناَ ایک سوالیہ نشان پیدا ہوا ہے۔

اس موقع پر فاٹا سیاسی اتحاد کے سابق صدر نثار محمد نے ٹاسک فورس کی تشکیل پر ہی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک وزیراعلی، گورنر اور چیف سیکرٹری کے ہوتے ہوئے نئی ٹاسک فورس کی بھلا ضرورت ہی کیا تھی۔

تاہم کانفرنس میں شریک باڑہ خیبرایجنسی سے منتخب پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اقبال آفریدی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پوری قوم تحریک انصاف کی حکومت اور اس کی تبدیلی کے وعدے کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ یہ وقت تھا کہ قبائلی عوام کو ملک و قوم کیلئے ان کی بے تحاشہ قربانیوں کا صلہ دیا جاتا اور یہ اصلاحات ہی ان کی قربانیوں کا بہترین صلہ ہیں۔

دوسری جانب عوامی  نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے کانفرنس کو آگاہ کیا کہ ان کی جماعت کی طرف سے ایک پختون قومی جرگہ تشکیل دیا جا رہا ہے جس میں تمام پختون قوم پرستوں جماعتوں کو شامل کیا جائے گا اور حکومت کے سامنے مطالبات کی ایک فہرست رکھی جائے گی فاٹا اصلاحات کا ایجنڈا جن میں سرفہرست ہو گا۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ وضاحت و صراحت اور اونرشپ کی کمی کے باعث یہ پورا معاملہ ہی لٹکا ہوا ہے جبکہ موجودہ سیاسی صورتحال سول سوسائٹی کی جانب سے مزید فعال و جاندار کردار کا متقاضی ہے۔

ان کی آراء سے اتفاق کرتے ہوئے سماجی کارکن ثناء اعجاز نے غیرسرکاری اداروں پر زور دیا کہ اصلاحات کے نفاذ میں ہونے والی پیشرفت پر کڑی نظر رکھیں کیونکہ اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔

این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے مجوزہ 100 ارب روپے کے فنڈ پر سوال اٹھاتے ہوئے سینئر صحافی افتخار فردوس کا کہنا تھا کہ اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے درکار اقدامات اور مشینری کی عدم موجودگی سے حکومتی غیرسنجیدگی ہی ظاہر ہوتی ہے۔

انہوں نے فاٹا اصلاحات کے نفاذ کے حوالے سے حکومت کے عزم کو ایک سافٹ کمٹمنٹ قرار دیا۔

بعض شرکاء کی جانب سے فاٹا سیکرٹریٹ کے اتنے بڑے فنڈ، اگر یہ فنڈ حاصل ہوتا ہے، سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔

فاٹا لائرز فورم کے سابق صدر اعجاز مومند نے فاٹا سیکرٹریٹ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں 3 فیصد حصے کا حصول بھی اپنی جگہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے لیکن موجودہ منیجمنٹ اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے سے عاری بھی۔

بعض شرکاء نے میڈیا کے کردار اور سول سوسائٹی پر مبنی ایک فورم تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا کہ اصلاحات کے نفاذ کے سلسلے میں حکومت پر دباؤ جاری رکھا جا سکے۔

بقول ان کے مذکورہ فورم اصلاحات کے عمل میں موجود خامیوں کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کیلئے تجاویز پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاحاتی عمل کے تسلسل کو قائم رکھنے کیلئے حکومت پر تنقید اور ستائش کا سلسلہ بھی جاری رکھے گا۔

آخر میں حکومت پر زور دیا گیا کہ کسی بھی اہم پیشرفت سے میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہ رکھا جائے تاکہ انہیں پتہ ہو کہ ان کیلئے کیا کیا جارہا ہے۔

 

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button