قبائلی علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو: ٹرانسپورٹ اڈوں کی حالت زار پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی؟
ایک علاقے کی تعمیر میں ترقی میں آمدو رفت کے ذرائع اہم کردار آدا کرتے ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں حالیہ دہشت گردی خلاف جنگ کے بعد ٹرانسپورٹ کے ذرائع خصوصآ مقامی سطح پر بنائے گئے مسافر گاڑیوں کے اڈے اور انتظار گاہیں بری طور پر متاٗثر ہوئے ہیں

تحریر شان آفریدی اور افتخار خان
ایک علاقے کی تعمیر میں ترقی میں آمدو رفت کے ذرائع اہم کردار آدا کرتے ہیں لیکن قبائلی علاقوں میں حالیہ دہشت گردی کےخلاف جنگ کے بعد ٹرانسپورٹ کے ذرائع خصوصآ مقامی سطح پر بنائے گئے مسافر گاڑیوں کے اڈے اور انتظار گاہیں بری طور پر متاٗثر ہوئے ہیں اور حکومت نے بھی انکی بحالی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے۔
ایک بہتر پبلک ٹرانسپورٹ سے نہ صرف مسافروں کو سہولت ہوتی ہے اور اسانی کیساتھ آمدورفت کرسکتے ہیں بلکہ اس سے ایک علاقے کی بازاریں بھی آباد ہوتی ہیں اور مقامی لوگوں کو روزگار کے ذرائع بھی میسر ہوتے ہیں۔
قبائلی ضلع خیبر میں 2009 کے دوران فوجی اپریشن سے پہلے باڑہ بازار میں ایک مرکزی بس ٓاڈہ تھا اور ہر قبیلے کا الگ الگ سٹینڈ تھا۔ لیکن علاقے میں فوجی اپریشن ہونے کے بعد باڑہ بازار کے بند ہونے سے یہ اڈے بھی بند ہوئے، اب بازار کے کھلنے سے ٹرانسپورٹ کے اڈے بھی کھل گئے ہیں لیکن اب پہلے کی طرح چہل پہل نہیں ہے۔
باڑہ بازار کے مشترکہ بس اڈہ منیجر محمد رضا نے ٹی این این سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اڈے پوری طرح بحال ہوجائیں تو نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ لوگوں کو آمدو رفت میں آسانیاں ملے گی اور باڑہ بازار بھی پہلے کی طرح آباد ہوجائیگا۔
محمد رضا نے بتایا کہ ’ یہاں پر سب سے بڑے اڈے اکاخیل، چرسیان اور میلواڈ تھے لیکن اب یہ مقامی اڈے بازار کی بجائے بٹہ تل منتقل ہوچکے ہیں جسکی وجہ سے لوگوں کو آمدو رفت میں مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب بازار کو آنے والے مسافروں اور گاہکوں کو عوامی ٹرانسپورٹ میسر نہیں ہوتی ہے اور یہ لوگ پیدل بازار کو آتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اوقات پیدل یا ٹیکسی کار کے ذریعے یہاں پر آتے ہیں اور حکومت نےابھی تک اس جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی ہے۔
ٹی این این ټي کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے اورکزئی کے قبائلی بزرگ شاہد خان نے کہا کہ بد آمنی کے بعد ضلعے کی زیادہ تر ٹرانسپورٹ کے اڈے بحال ہوئے ہیں جبکہ اپر اورکزئی میں پہلے سے موجود تین اڈے تاحال بحال نہیں ہیں اور لوگ خصوصی طور پر چلنے والے ٹیکسیوں کو استعمال کرتے ہیں۔
شاہد خان کا مزید کہنا ہے کہ امن کے زمانے میں اپر اورکزئی میں ڈبوری، غلجو اور خدیزئی کے مقام پر تین بڑے اڈے تھے جہاں پر سینکڑوں گاڑیاں تھیں لیکن اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اڈے میں کوئی بھی گاڑی نہیں ہوتی تو ایسی صورتحال میں اگر کسی نے نزدیک جانا ہے تو وہ پیدل چلے جاتے ہیں اور بعض آمیر لوگ ٹیکسی لیتے ہیں لیکن پشاور اور دور جانے والے اگلے روز کا انتظار کرتے ہیں۔
شاہد خان کا کہنا ہے کہ اب ان اڈوں میں ہوٹلیں، مسترویوں کی دکانیں اور جنرل سٹورز بھی بند ہیں، جس کی وجہ سے سینکڑوں مقامی لوگوں کی روزگار ختم ہوئی ہے۔
اسی طرح کے خیالات جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ٹرانسپورٹر جمال خان نے بھی شریک کئے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں جنگ سے پہلے آمدورفت کی بری آسانیاں تھیں لیکن اب بعض علاقوں کے لئے مسافر گاڑیاں بلکل نہیں ملتی۔
ان کا کہنا ہے، ’ کہ اگر آج کے دور کا موازانہ جنگ کے زمانے سے پہلے کیا جائے تو آج کل یہاں ہر عوامی ٹرانسپورٹ کے اڈوں کا نظام درہم برہم ہے اب جنوبی وزیرستان کے کانی گورم، کوٹکی اور کڑمے کے لئے کسی قسم کا بھی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔
جمال خان کا خیال ہے کہ اپریشن کے بعد متاٗثرین کا اپنے علاقوں کو نہ جانے کی بڑی وجہ بھی یہاں پر ٹرانسپورٹ کا نہ ہوناہے کیونکہ ان علاقوں میں موبائل سروس بھی نہیں ہے اور لوگوں کا باہر کی دنیا سے رابطہ بھی نہیں ہوتا۔
دوسرے قبائلی ضلعوں کی نسبت باجوڑ اور مومند میں عوامی ڑرانسپورٹ کے اڈے بحلا ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ڈرائیور حضرات اور مسافر سہولیات کی عدم دستیابی پر نالاں نظر آتے ہیں۔
باجوڑ خار کے اڈہ منشی عالم خلجی بتاتے ہیں کہ پہلے بازار میں صرف ایک اڈہ ہوا کرتا تھا جس سے وقت پر اور تیزی کیساتھ گاڑیاں نکلتی تھیں لیکن اب ہر دوسرے تیسرے مارکیٹ میں اڈے قائم کئے گئے ہیں۔
محمد عالم نے ٹی این این کو بتایا کہ بے نبمریوں کیساتھ گاڑیوں کے نکلنے سے اڈوں کے انتظام سھمبالنے میں مسائل پیدا ہوئے ہیں، اب گاڑیوں میں دو یا تین مسافر بیھٹے ہوتے ہیں اور گاڑی کے فل ہونے ہونے میں وقت درکار ہوتا ہے۔
مومند حلین زیئ کے قبائلی بزرگ شمروز خان بھی عالم خلجی کے خیال سے متفق نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے مخصوص اڈے تھے لیکن ابھی ہر کسی نے اپنا اڈا کھولا ہے اور حکومت بھی انکے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔
قبائلی علاقوں میں فوجی اپریشن کے بعد حکومت کی جانب سے بحالی اور تعمیر نو کے منصوبے جاری ہیں۔
فاٹا سیکٹریٹ کے ترجمان عبدالسلام وزیر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ قبایلی علاقوں کے دوسرے شعبوں کی طرح حکومت ٹرانسپورٹ کے نظام پر بھی پوری توجہ دے رہا ہے اور اس ضمن میں حال ہی میں شمالی وزیرستان میں حکومت نے ایک جدید بس ٹرمینل تعمیر کیا ہے جہاں پر خواتین کے لئے الگ واش رومز اور انتظار گاہیں بنائی گئی ہیں اور ٹرمینل کا تمام نظام کمپوٹراز ہے۔ حکومت اسی طرز کے بس ٹرمینل ہر قبائلی ضلع میں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
عبدالسلام وزیر نے واضح کیا کہ جنوبی وزیرستان میں بعض جگہوں پر اڈے بحال نہیں ہوئے ہیں لیکن وہاں پر ان زمینوں پر مقامی لوگوں کے تنازعات چلے آرہے ہیں جبکہ زیادہ تر قبائلی علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے اڈے بحال ہوئے ہیں۔ .