خواتین ووٹرز کی شرح میں بہتری، الیکشن کمیشن کی کامیابی یا قبائلی عوام میں ووٹ کی اہمیت بارے آگاہی میں اضافہ؟
ماضی میں قبائلی خواتین کو یا تو باقاعدہ جرگہ کے ذریعے انتخابی عمل سے باہر کیا جاتا تھا اور یا دیگر وجوہات کی بناء پر خواتین اپنا ووٹ کاسٹ کرنے سے گریزاں رہتی تھیں تاہم اس مرتبہ قبائلی خواتین کی کثیر تعداد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے۔

25 جولائی کو ملک کے دیگر حصوں کی طرح قبائلی علاقوں میں بھی قومی اسمبلی کی 12 نشستوں پر انتخابات عمل میں لائے گئے جہاں ماضی کے برعکس قبائلی خواتین کی ایک کثیر تعداد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
ماضی میں قبائلی خواتین کو یا تو باقاعدہ جرگہ کے ذریعے انتخابی عمل سے باہر کیا جاتا تھا اور یا دیگر وجوہات کی بناء پر خواتین اپنا ووٹ کاسٹ کرنے سے گریزاں رہتی تھیں۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سات قبائلی اضلاع اور چھ ایف آرز میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 25 لاکھ سے زائد ہے جس میں نصف سے زائد تعدد خواتین ووٹرز پر مبنی ہے۔
قبائلی سیاسی رہننماؤں کے مطابق ماضی میں بمشکل 4 تا 5 فیصد قبائلی خواتین ہی اپنا ووٹ کاسٹ کرتی تھیں لیکن اب کی بار انہوں نے پرانی ساری روایات توڑ دیں ہیں۔
2018 کے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی خبردار کیا گیا تھا کہ جس حلقے میں بھی خواتین کے ووٹ کی شرح دس فیصد سے کم ہوئی تو وہاں کے انتخابی نتائج کالعدم قرار دیے جائیں گے۔
یہی وجہ تھی کہ اس مرتبہ امیدواروں کی جانب سے بھی اس ضمن میں خاصی دوڑ دھوپ کی گئی جس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کے 12 حلقوں میں دو لاکھ 38 ہزار سے زائد خواتین نے ووٹ پول کیا جس کا مجموعی تناسب 28 فیصد سے زائد بنتا ہے۔
قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن زینب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کی سماجی زندگی میں تبدیلی آئی ہے جبکہ اس کے علاوہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام بھی ان وجوہات میں سے ہے جس کی وجہ سے اس بار زیادہ تعداد میں خواتین نے ووٹ کا استعمال کیا۔
"ایک تو قبائلی عوام میں تبدیلی آئی ہے، میں مہمند کی مثال دوں گی جہاں خویزو بیزو علاقوں میں 2013 کے عام انتخابات کے دوران ایک بھی خاتون نے ووٹ پول نہیں کیا تھا لیکن اس مرتبہ وہاں بھی خواتین نے کافی تعداد میں ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ فاٹا انضمام بھی ہے جس کی وجہ سے قبائلی خواتین نے یہ قدم اٹھایا اور ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے باہر آئیں۔”
قبائلی علاقوں میں اس مرتبہ ووٹرز کا مجموعی ٹرن آؤٹ ساڑھے آٹھ لاکھ رہا جس میں دو لاکھ 40 ہزار تک خواتین شامل ہیں اور یوں ان کا مجموعی تناسب 28 فیصد سے زائد بنتا ہے۔
کرم سے تعلق رکھنے والی رابعہ کہتی ہیں کہ اس مرتبہ ان کے خاوند نے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ووٹ ڈالنے کیلئے ضرور جاؤں۔
"الیکشن کے روز اپنے چھوٹے بچے کو گھر چھوڑ کر میں ادھر ووٹ کاسٹ کرنے گئی اور اپنا فرض ادا کیا۔”
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سیاست دان عطاء اللہ خان آفریدی کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں سے خواتین کے زیادہ تعداد مین ووٹ ڈالنے کی وجہ الیکشن کمیشن کا نیا قانون ہے۔"یہ الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین کے دس فیصد ووٹ کی شرط سے ہی ممکن ہوا، اسی باعث امیدواروں نے اپنی بھرپور کوششیں کیں، انہیں فکر تھی کہ اگر ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ بھی ہوں تو کہیں خواتین کے کم ووٹ کی وجہ سے وہ اس عمل پر دوبارہ مجبور نہ ہو جائیں۔”
قبائلی ضلع مہمند کی رانی خان سمجھتی ہیں کہ ماضی میں قبائلی خواتین میں تعلیم اور ووٹ کے استعمال کی اہمیت بارے آگاہی نہین تھی جس کی وجہ سے وہ الیکشن سرگرمیوں سے بھی بے خبر رہیں۔
"اس مرتبہ زیادہ تعداد میں خواتین کی شرکت کی وجہ قبائلی عوام کی بندوسبتی علاقوں کی جانب نقل مکانی تھی جہاں انہیں خواتین کی الیکشن میں شرکت اور ووٹ کے استعمال کی اہمیت کا پتہ چلا۔”
اسی طرح اورکزئی سے تعلق رکھنے والی سکول ٹیچر یاسمین اورکزئی کا ٹی این این کے ساتھ گفتگو کے دوران اس حوالے سے کہنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی خواتین کے نززدیک بھی سیاسی سرگرمیوں خصوصا ووٹ کے استعمال کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ان کے مرد رشتہ دار نہ صرف انہیں ووٹ دالنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ انہین پولنگ سٹیشن تک لانے لے جانے میں بھی معاون ہوتے ہیں۔
"پہلے ہمیں ووٹ کی اہمیت معلوم ہی نہیں تھی تبھی ہم کنارہ کش رہتی تھیں اور اب جب ہمیں اس کی اہمیت معلوم ہوئی تو مقررہ دن ہم گئے اور اپنا ووٹ کاسٹ کیا، ہم آئندہ بھی ووٹ پول کریں گی اس سے بھی زیادہ جذبے کے ساتھ۔”دوسری جانب این اے 49 شمالی وزیرستان سے ایم ایم اے کے منتخب رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین دعوے سے کہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے گزشتہ دور حکومت میں اپنے حلقہ انتخاب کی خواتین کے پانی سمیت کئی مسائل حل کیے تھے تو ان کے حلقے کی خواتین انہیں ہی ووٹ دینے کیلئے باہر نکلیں تھیں۔
"گزشتہ حکومت میں اکچر مقامات پر میں نے خواتین کیلئے ٹیوب ویلز اور گھر کے اندر پانی کا بندوبست کروایا تھا، یہی وجہ تھی کہ میرے حلقے کی خواتین نے غیرت دکھائی اور بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آئیں اور اپنے ووٹ سے مجھے دوبارہ کامیاب کرایا۔”
دوسری جانب کرم کے دو قومی حلقوں این اے 45 اور این اے 46 میں خواتین ووٹرز کا تناسب ملک کے بیشتر بندوبستی علاقوں ے بھی زائد دیکھا گیا۔ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران اس حوالے سے الیکشن کمشنر کرم نصراللہ خان نے بتایا، "الیکشن کمیشن نے قبائلی علاقوں میں اس حوالے سے گزشتہ دیڑھ سال سے کوششیں کیں جس کی وجہ سے یہاں خواتین ووٹرز کا تناسب کافی بہتر رہا۔ اس سلسلے میں ہمیں شروع ہی سے ہدایات د گئیں کہ خواتین میں آگاہی کیلئے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دیں، ان کمیٹیوں نے حجروں اور مساجد میں بار بار عوام کو ووٹ کی اہمیت اور ضرورت بارے آگاہی دی اور خصوصی طور پر خواتین کے ووٹ کے استعمال کیلئے ہم نے بہت کوششیں کیں، یہی وجہ تھی کہ یہاں ہماری خواتین کا مجموعی تناسب 46 فیصد رہا جو ایک اچھی تعداد قرار دی جاتی ہے۔”
قبائلی خواتین میں ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے اور اس سلسلے میں قبائلی علاقوں میں آگاہی پروگرامات کا اہتمام کرنے والی تکڑہ قبائلی خوئیندو نیٹ ورک کی ترجمان زہرہ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں باجوڑ سے خاتون امیدوار بادام زری نے 140 ووٹ لیے تھے جبکہ اس بار ضلع کرم سے علی بیگم نے 1300 ووٹ لیے۔زہرہ سمجھتی ہیں کہ علی بیگم کو زیادہ ووٹ خواتین کے پڑے ہیں جس سے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران خواتین ووٹرز کی شرح میں اضافے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
"سب سے بڑی وجہ الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین کے دس فیصد ووٹ کی شرط تھی، اس کے علاوہ میڈیا کا اس میں بڑا کردار تھا، جب تک ہماری قبائلی خواتین سیاست کی طرف نہیں آتیں اور انتخابی عمل میں مکمل شریک نہیں ہوتیں ترقی ایسے نہیں آئے گی، مجھے امید ہے کہ آنے والے دور میں خواتین نہ صرف انتخابی عمل میں برابر کی شریک ہوں گی بلکہ خواتین الیکشن میں بھی حصہ لیں گی اب بھی ایسی بہت ساری تعلیم یافتہ قبائلی خواتین ہیں جو باقاعدہ امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ ینے کی اہل ہیں۔”