قبائلی اضلاع

قبائلی اضلاع میں دس لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر، ساڑھے چار لاکھ ابتدائی تعلیم سے محروم

ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست کے دوران محولہ بالا اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے قبائلی اضلاع کے ایجوکیشن ڈائریکٹر ہاشم خان آفریدی کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے والدین کو آگے آنا اور اپنے بچوں کو مختلف سکولوں میں داخل کروانا چاہیے۔

سید نذیر سے

قبائلی اضلاع میں دس لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جبکہ ابتدائی تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ ایک خصوصی نشست کے دوران محولہ بالا اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے قبائلی اضلاع کے ایجوکیشن ڈائریکٹر ہاشم خان آفریدی کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے والدین کو آگے آنا اور اپنے بچوں کو مختلف سکولوں میں داخل کروانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ بدامنی اور فوجی آپریشنوں کے باعث سلسلہ تعلیم ادھورا چھوڑنے والے زائد العمر بچوں کیلئے حکومت فی الحال 175 متبادل سکول چلا رہی ہے۔

قبل ازیں انہوں نے تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے اپنے دفتر سے باب خیبر تک ایک آگاہی ریلی کی قیادت بھی کی۔

ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران سینئر صحافی ابراھیم شینواری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جب بدامنی کے باعث فاٹا سے ہزاروں کی تعداد میں خاندان نقل مکانی کر گئے تھے تو مختلف قبائلی اضلاع کے ہزاروں بچے تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

شینواری کے مطابق نقل مکانی کی تو خیموں سے بنے عارضی سکولوں میں پینے کے صاف پانی، بیت الخلاء اور سٹاف جیسی سہولیات کا فقدان ایسے عوامل نے ان بچوں کو سکول سے دور رکھا، جبکہ اس دوران چند سال ضائع ہونے کی وجہ سے اب ان کیلئے اپنے ہم عمر اور ریگولر طلباء کے قدم کے ساتھ قدم ملانا ناممکن ہی ہے۔

انہوں نے انتظامیہ کی جانب سے عارضی و متبادل سکولوں کے بندوبست کو سراہا بھی تاہم ان کے معیار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سکول اس معیار کے ہیں ہی نہیں کہ مختلف عمر کے بچوں کی سالوں کی تعلیمی کمی کو ایک ہی سال میں پورا کر سکیں۔

ابراھیم شینواری کے مطابق دس لاکھ سے زاد بچوں کا سکول سے باہر ہونا اور حکومت کی اس نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکامی ایک سنگین مسئلہ ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ فاٹا کے خیبرپختوخوا میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں تعلیم کو فروغ ملے گا۔

خیال رہے کہ فاٹا سیکرٹریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2004 تا 2016 سابقہ فاٹا میں شدت پسندوں نے 13 سو سے زائد سکولوں کو یا تو جزوی اور یا مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا جن میں سے 5 سو کے قریب دوبارہ تعمیر کیے گئے جبکہ باقی کے آج بھی اسی تباہ حالی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

ابراھیم شینواری سمجھتے ہیں کہ سکولوں کی ازسرنو تعمیر و بحالی کے عمل میں سست روی بھی والدین کی جانب سے متاثرہ یا خیموں کے سکولوں کو اپنے بچے نہ بھیجنے کی ایک وجہ ہے۔

اپر اورکزئی ایجنسی کی مثال دیتے ہوئے ابرھیم شینواری نے کہا کہ شدت پسندی اور فوجی آپریشنوں سے وہاں کی 98 فیصد تعمیرات متاثر ہوئیں اور دستاویزات کی حد تک 25 ہزار متاثرہ خاندان وہاں واپس آباد کیے جا چکے ہیں تاہم درحقیقت متاثرہ خاندانوں کی اکثریت اج بھی ہنگو اور کوہاٹ میں مقیم ہے جس کی وجہ ان کے اپنے علاقوں کی متاثرہ و تباہ حال املاک ہیں۔

ماہرتعلیم اور آفریدی ماڈل سکول ایند کالج کے پرنسپل جمیل آفریدی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ قبائل اپنے بچوں کی تعلیم سمیت سب کچھ کھو چکے لہٰذا اب قبائلی بچوں کو بارہویں جماعت تک مفت تعلیم کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے اندر آج بھئ ایسے علاقے ہیں جہاں نجی سکول ہیں نہ ہی سرکاری اور نتیجتاَ وہاں کے بچے تعلیم کی سہولت سے محروم بڑے ہوتے ہیں۔

علاقے میں فروغِ تعلیم کیلئے نجی و سرکاری اشتراک کی حوصلہ شکنی پر فاٹا سیکرٹریت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جمیل آفریدی نے مطالبہ کیا کہ فاٹا بھر میں سٹریٹ چلڈرن اور زائدالعمر بچوں کو سکول میں داخل کروانے کیلئے حکومت فوری اقدامات کرے۔

واضح رہے کہ یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 260ملین سے زائد بچے اور نوجوان (نوبالغاں) سکول سے باہر ہیں، 617 ملین یعنی ہر دس میں سے چھ بچے یا نوجوان خواندگی و حساب دانی کی بنیادی الف ب سے بھی ناواقف  جبکہ 750 ملین نوجوان و جوان پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں  اور ان مین دو تہائی خواتین ہیں۔

عالمی یوم خواندگی کے موقع پر یٰونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل اودری ازولای کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ اس طرح کی کوتاہیاں معاشرے سے (نوجوان نسل کی یا ایسے بچوں کی) اصل بے دخلی اور سماجی و صنفی ناانصافیوں کا باعث بنتی ہیں اس لیے آج اس عالمی دن پر تعلیمی دنیا کے سٹیک ہولڈرز کے علاوہ بھی سب سے اپیل کرتی ہوں، کہ یہ ہمارا مشترکہ نصب العین ہے، کہ ایک  مکمل طور پر تعلیم یافتہ/ خواندہ عالمی معاشرے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے میدان میں آئیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button