سٹیزن جرنلزمقبائلی اضلاع

‘اس جدید دور میں بھی ہم پہاڑوں پرچڑھ کر اپنوں سے رابطہ کرتے ہیں’

 

سٹیزن جرنلسٹ رضیہ محسود
جنوبی وزیرستان تحصیل سراروغہ قوم گلیشئی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر زندگی کی بنیادی سہولیات موجود نہیں یہاں تک کہ وہاں پر کوئی سہولیات کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس علاقے کو ویشتنائی کہا جاتا ہے علاقہ ویشتنائی جوکہ کافی دور ہے اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہاں پر زندگی انتہائی مشکل ہے اس علاقے تک جانے کے لئے روڈ نہ صرف کچا بلکہ انتہائی خراب حالت میں ہے یہاں تک کہ اس علاقے میں ڈاٹسن نامی گاڑی بھی بہت مشکل سے اس کچے روڈ کو کراس کر کے جاتی ہیں۔

ویشتنائی سے تعلق رکھنے والی انار دانہ ( عارضی نام کیونکہ یہ عورت اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی) نے بتایا کہ یہاں پر ہم بہت مشکل سے زندگی گزارتے ہیں یہاں پر اگر کوئی بیمار ہو جائے یا یہاں پر کوئی ایمرجنسی ہوجائے تو بہت مشکل ہوتی ہے کیونکہ یہاں پر پورے علاقے میں تین گاڑیاں موجود ہوتی ہے جو باری باری شہر جاتی ہے جو علاقے کے لوگوں کے لئے موجود ہوتی ہے لیکن اگر کبھی یہ گاڑیاں موقع پر نہ ہو تو بیمار راستے میں مر جاتے ہیں کیونکہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

اناردانہ کا کہنا تھا کہ میری عمر 55 سال ہے ایک دفعہ میری طبیعت اچانک بہت زیادہ بگڑ گئی اور حالت غیر ہونے لگی کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ مجھے بھی نہیں لے جا سکتے تھے گاڑی بھی موجود نہیں تھی۔ میرا بیٹا کئی کلو میٹر دور جنتہ گیا اور وہاںسے میڈیکل ٹیکنیشن کو لے آیا جس نے مجھے ڈریپ لگایا اور میری طبیعت ٹھیک ہوگئی مگر یہ پتہ نہیں چلا اور نہ اس نے مجھے بتایا کہ مجھے کیا ہوا تھا اور کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔

ثریا نامی عورت نے بتایا کہ یہاں پر عورتوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے جب ہمارے گھر والے کسی دوسرے شہر نوکری کے لئے یا تعلیم حاصل کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں تو ان سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہو سکتا۔ ایک طرح سے وہ ہم سے گم ہو جاتے ہیں اور کوئی خبر نہیں ہوتی۔  علاقے میں مقامی دوکان پر لینڈ لائن لگا ہوا ہے تو گھر کے مرد رابطہ کر کے خیر خیریت معلوم کر لیتے ہیں باقی ہم خواتین کی کوئی بات نہیں ہو سکتی جب تک وہ گھر واپس نہ آجائے۔ثریا نے بتایا کہ یہاں پر دور پہاڑ پر موبائل کے سگنلز تھوڑا بہت کام کرتے ہیں اور علاقے کی خواتین لکڑیاں کاٹنے پہاڑوں پر جاتی ہے تو وہ پہاڑ کی چوٹی پر اپنوں کی خیر خیریت معلوم کرنے کے لئے چڑھ جاتی ہے اور موبائل پر اپنوں سے رابطہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی کافی مشکل ہوتا ہے پہاڑ پر چڑھنا۔

یہاں پر جب انار دانہ سے تعلیم کے حوالے سے بات کی گئی تو انار دانہ نے بتایا کہ علاقے میں سکول موجود نہیں ہے ہاں دور بہت پہاڑ پر ایک سکول موجود ہے جو کہ غیرفعال ہے یہاں کے لوگ بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں مگر جب سکول میں اساتذہ موجود نہ ہو تو کیسے پڑھایا جا سکتا ہے جب کہ ہمارے جو لوگ ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور،ٹانک ،بنوں میں رہتے ہیں وہ اپنے بچوں کو سبق پڑھا رہے ہیں کیونکہ وہاں پر سہولیات موجود ہے مگر یہاں پر زندگی انتہائی مشکل ہے۔

ثریا سے جب کاروبار کے حوالے سے بات کی گئی تو ثریا کا کہنا تھا کہ یہاں پر سہولیات موجود نہیں مگر عورتوں کے پاس ہنر موجود ہے یہاں کی تقریبا تمام عورتیں اور لڑکیاں مازری سے بنی ہوئی چیزیں بناتی ہے اور اس سے پیسے کماتی ہے اور مازری سے بنی ہوئی چیزیں گرمیوں میں زیادہ بکتی ہے اور سردیوں میں چونکہ یہ چیزیں زیادہ سرد ہوتی ہے تو اسی وجہ سے اس کا استعمال کم ہوتا ہے اور سردیوں میں اس سے کم منافع ہوتا ہے یہاں پر چونکہ مازری زیادہ اگتی ہے تو یہاں پر اس سے بنی ہوئی چیزیں ہم سے دوکاندار خرید کر اس کو دوسرے شہروں میں بیجتے ہیں اور اس طرح مردوں کے ساتھ ساتھ ہم خواتین بھی گھر کی سرمایہ داری میں حصہ لیتی ہے اور مردوں کا ساتھ دیتی ہے۔

یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آج تک حکومت نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا اور نہ ہماری مشکلات کسی کو نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے کہ ہم حکومت کی نظروں سے اوجھل ہے ہمارے علاقے تک مین روڈ تک صحیح طریقے سے موجود نہیں۔غرض یہ علاقہ جہاں کی خواتین اتنی ہنر مند ہے جو ایک خاص ہنر رکھتی ہیں تو وہاں پر زندگی کی بنیادی سہولیات موجود نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ انکو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button