قبائلی اضلاع

سکول استاد کی مبینہ جعلی مقابلے میں ہلاکت،خیبر انتظامیہ سے مذاکرات ناکام، احتجاج زور پکڑنے لگا

قبائلی ضلع خیبر میں سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں سکول استاد کے قتل کے خلاف رواں دھرنے کے شرکاء سے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے مذاکرات ناکام ہونے پر دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

عرفان اللہ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف دوسرے روز بھی باڑہ خیبر چوک میں مظاہرہ جاری رہا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائیندگان، قبائلی مشران اور باڑہ بازار کے تاجران نے شرکت کی۔ مظاہرے میں پاکستان تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی شفیق افریدی نے بھی شرکت کی۔

عرفان اللہ یکم جون سے جمرود سے لاپتہ ہوگئے تھے جہاں وہ محکمہ تعلیم سے اپنی نوکری کا تقرر نامہ لینے گئے تھے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق عرفان اللہ نے دو ماسٹر کئے تھے اور عرصہ دراز سے معلم کی حیثیت سے مختلف نجی تعلیمی اداروں میں کام کرتے رہے۔ احتجاج کے موقع پر شرکاء نے کہا کہ عرفان اللہ کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور جعلی پولیس مقابلہ دکھا کر بے گناہ معلم کو قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سزا اگر پولیس نے دینی ہے تو عدالتیں کس لئے ہیں۔

مقررین نے مطالبہ کیا واقعہ کیلئے آزاد عدالتی کمیشن بنایا جائے اور شفاف تحقیقات کرکے ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ مقررین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مقتول کی بیوہ تعلیم یافتہ ہے لہذا اسکو محکمہ تعلیم میں بھرتی کرکے انکے بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی حکومت برداشت کرے۔ مظاہرہ جو صبح سے جاری تھا عصر کو پر امن طور پر منتشر کردیا گیا۔ اس دوران ڈی پی او خیبر محمد اقبال اور ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر باڑہ خالد نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کئے اور مظاہرین کے مطالبات سنے گئے تاہم اس دوران مظاہرین کے نمائندے ڈی پی او اور ضلعی انتظامیہ سے مطمئن نہ ہوئے اور مظاہرہ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ مظاہرین کی نمائندہ سیاسی اتحاد نے اعلان کیا کہ مطالبات کے حق تک روانہ کی بنیاد پر احتجاج جاری رہے گا اورصبح نو بجے دوبارہ خیبر چوک میں احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا جس کیلئے مختلف قبیلوں کے مساجد میں اعلانات کرکے باڑہ بازار کے علاؤہ علاقائی بازاروں کو بھی احتجاجاً بند کیا جائے گا۔

دوسری جانب عرفان اللہ کے ساتھ مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے اسداللہ کے والد اور ثاقب اللّٰہ کے چچا مثل خان نے بھی اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ہمراہ شرکت کی اور پولیس مقابلہ ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس اور اعلی حکام سے انصاف کی اپیل کی۔

اسداللہ کے والد نے کہاکہ ان کے بیٹے کو چودہ مئی اکیس رمضان کو سی ٹی ڈی والوں  آریائی متنی سے گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے اور بھتیجے ثاقب اللّٰہ کو دو جون کو سی ٹی ڈی والوں نے گرفتار کیا جس کے بعد ان کوئی پتہ نہیں چلا۔ ہم اس امید میں تھے کہ انہیں رہا کردیا جائے گا لیکن ان کی رہائی کی بجائے ان کی نعشیں ہمیں دی گئیں ۔

انہوں نے کہا کہ واقعہ کے روز انہیں ویران گھر میں لے جاکر چپلوں کی بجائے بوٹ پہنائے گئے اور ان کے سینے پر خود کش جیکٹ لگائے  تاکہ واقعے کو پولیس مقابلہ ظاہر کیا جاسکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button