افغان خواتین کی صحت و تحفظ کے لئے ساٹھ لاکھ اسٹریلوی ڈالرز کے پراجیکٹ کا آغاز
ڈاکٹر شرمن سٹون پاکستان کے تین روزہ دورے پر ٓائے ہوئے ہیں، وہ اسٹریلین پارلیمنٹ کے سابق رکن ہیں انہوں نے گزشتہ روز اسلام ٓباد میں افغان خواتین کی صحت و تحفظ کے لئے چھ ملین آسٹریلوی ڈالرز کے ایک پراجیکٹ کو لانچ کیا ہے

طیب افریدی
آسٹریلیا کے سفیر برائے خواتین ڈاکٹر شرمن سٹون نے کہا ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین اور لڑکیوں کے قتل کرنے کوغیرت نہیں کہہ سکتے، بلکہ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔
’کسی بھی فرد کا قتل خواہ وہ آپ کی بہن ہو، پڑوسی ہو، جسے آپ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ہم اسے غیرت نہیں کہتے، کسی کو قتل کرنے میں کوئی غیرت نہیں، اسے ہم قتل ہی کہتے ہیں‘۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ٹی این این کیساتھ خصوصی انٹر ویو کے دوران کیا۔
ڈاکٹر شرمن سٹون پاکستان کے تین روزہ دورے پر ٓائے ہوئے ہیں، وہ اسٹریلین پارلیمنٹ کے سابق رکن ہیں انہوں نے گزشتہ روز اسلام ٓباد میں افغان خواتین کی صحت و تحفظ کے لئے چھ ملین آسٹریلوی ڈالرز کے ایک پراجیکٹ کو لانچ کیا ہے جس پر حکومت پاکستان اور یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) ملکر کام کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ آئیڈیا ان سرحدی علاقوں میں کام کرنے کا ہے جہاں بہت سارے خاندان تنازعات سے گزرے ہیں، ان کی زندگی اجیرن ہوئی ہے اور جنہیں اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے ہیں اور وہ محفوظ اور مناسب مقامات میں رہائش پذیر بھی نہیں اس لیے ان چھ ملین ڈالرز سے فیملی پلاننگ اور صحت کی مد کے علاوہ ایسی خواتین کی مدد کرنا بھی ہے جو خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنا چاہتی ہیں اور ایسی خواتین کو زیادہ دور نہ جانا پڑے نہ ہی ان کے زیادہ پیسے خرچ ہوں یہی ہم نے یقینی بنانا ہے، ہم ان گھرانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جنہیں واقعی میں ایک ٹراما کا سامنا ہے۔
ڈاکٹر شرمن سٹون خواتین اور لڑکیوں کیلئے آسٹریلیا کی تیسری سفیرہیں، انکا مشن بحرالکاہل کے ہند ایشیائی خطے جسے آپ آسٹریلیا کا پڑوس کہہ سکتے ہیں میں سفر کرنا اور پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کیلئے یکساں مواقع یا مساوات جیسے مشترکہ اہداف کے حصول کیلئے کام کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی آسٹریلین حکومت نے ڈھیر سارا پیسہ لگایا مثال کے طور پر سکولوں کی تعمیر پر اور یہ سارے سکول لڑکیوں کیلئے ہیں۔
آج صبح بھی میں نے دو سکولوں کا دورہ کیا ہے، صرف لڑکیوں کیلئے ہیں یہ سکول، جن میں سے ایک میں ہم نے بہت سارے کمروں کی تعمیر کے علاوہ آلات بھی مہیا کیے ہیں تاکہ لڑکیوں کو بھی تعلیمی میدان میں آگے جانے کیلئے لڑکوں جیسے مواقع میسر ہوں۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ثقافت کے اعتبار سے اگرچہ ہم مختلف ممالک ہیں لیکن ہمارا استعماری پس منظر ایک ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، واقفیت رکھتے ہیں، دونوں کو کرکٹ سے لگاؤ ہے، دونوں ممالک خشک تو دونوں کو پانی کی ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ملکر خواتین کیلئے بہتر مساوات، اقتصادی مواقع اور صنفی تشدد میں کمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
یہی اہداف آسٹریلیا میں ہمارے اپنے بھی ہیں، غالباَ ہم سب ملکر اس دنیا کو اہک بہتر جگہ یا مقام بنا سکتے ہیں۔
خواتین کی صحت اور تولید کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے اگر میاں بیوی یہ نہیں طے کر پاتے کہ ان کے کتننے بچے ہوں گےیا بچوں کے درمیان وقفہ کتنا ہو گا تو ایسے میں ظاہر ہے خاتون کے کئی بلکہ بہت زیادہ بچے ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ اتنے بڑے گھرانے کی صحت، خوراک، تعلیم وغیرہ کیلئے وسائل کی کمی ہو گی۔ ہم جانتے ہیں کہ 21ویں صدی میں فیملی پلاننگ تک رسائی کوئی اتنی بڑی بات نہیں، ہمارے پاس ایسی کئی مصنوعات اور خدمات ہیں جن کی بدولت میاں بیوی خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
’یہ ماں اور بچوں کی صحت کی ضامن ہے اور بلا شبہ اب تو پاکستان کی آبادی بھی دو سو ملین سے زائد ہے(ایسے میں) وسائل کم ہی پڑ جاتے ہیں۔ آسٹریلیا ایک بہت بڑا ملک ہے لیکن زیادہ تر دشت و بیابان اس لیے ہم اپنی آبادی پے ٹھیک ٹھاک نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
صحت سہولیات کی فراہمی کے منصوبے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ فی الحال تو انہیں اس کا اندازہ نہیں کہ عملاَ یہ کس طرح ہو گا ، یو این ایف پی اے کو اس کا خاصا تجربہ ہے، ہم ہمیشہ جس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مقامی آبادی، مقامی دائیوں، صحت سے متعلق مقامی پروفیشنلز کے ساتھ ملکر کا کرنا ہے کیونکہ وہی میدان میں ہوتے ہیں اور لوگ بھی ان پر بھروسہ کرتے ہیں، اس لیے یقیناَ مقامی لوگوں کے ساتھ ہی مل کر کام کریں گے۔
بیس سال تک سیاست میں رہنے والی ڈاکٹر سٹون نے کہا کہ پاکستان یا آسٹریلیا جیسی جمہوریتوں میں خواہ مرد ہو یا خاتون، بزرگ ہو یا جوان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوتا لیکن خواتین کیلئے تو یہ زیادہ ہی مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کیلئے مخصوص نشستیں ہیں اور میرے خیال میں آٹھ نشستیں جنرل بھی جس کا تناسب 3 یا اس سے کچھ کم زیادہ فیصد بنتا ہے۔ اسی طرح ایشیاء پیسفک کے پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی اوسط تقریبا 7 یا اس سے کچھ زیادہ بنتا ہے، شمالی کرہ ارض میں یہ شرح تناسب 30 سے 40 فیصد خواتین کی ہے (جبکہ) آسٹریلیا میں یہ محض 27 تا 30 فیصد خواتین پارلیمنٹ میں ہیں۔
’ہم اچھے نہیں جا رہے کیونکہ ہمارا ہدف پارلیمان میں مردوں کے برابر خواتین کو لانا ہے یعنی ففٹی ففٹی۔ جمہوریت لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے تو پاکستان اور سٹریلیا کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے ایسے میں پارلیمان میں نصف تعداد خواتین کی آخر کیوں نہ ہو؟ ظاہر ہے فی الحال اس منزل سے ہم کافی دور ہیں، بسا اوقات خواتین کو مردوں کو قائل کرنا پڑتا ہے کہ پارلیمان میں ان کی بھی جگہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں بچوں کی دیکھ بھال آسان نہیں اس لیے ایسی خواتین کیلئے پارلیمان پہنچنا بہت مشکل ہوتا ہے جن کے بچے ہوتے ہیں، چندے کی مہم بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین سیاستادونوں کے لیے کافی کٹھن ہوتی ہے سو ان تمام وجوہات کی بنا پر خواتین کی مشکلات زیادہ ہوتی ہیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ خواتین پیچھے ہی ہٹ جائیں بلکہ آج سکول دورے کے موقع پر کافی ذہین و فطین طالبات ایسی بھی ملیں مجھے جو سیاست میں آنا چاہتی ہیں، بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ یہی نوجوان خواتین پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اور یہی کچھ آسٹریلیا میں بھی ہے کہ سکول سے فارغ ہونے والی نوجوان خواتین کی نظریں پارلیمان پر لگی ہوئی ہیں اور یہ بھی ایک بہت ہی خوب ہے۔
پارلیمان میں خواتین کی موجودگی میں اضافہ جمہوریت کیلئے بھی ایک اچھا شگون اور اسکا یہ مطلب نہیں کہ خواتین اور مردوں کا کوئی مقابلہ ہے۔