قومی

سگریٹ مہنگے، موبائل پر ٹیکس بڑھانے اور کم سے کم پینشن 10 ہزار کرنے کی تجویز

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انتخابی دھاندلی کے حوالے سے پیش کی گئی تحریک منظور کی گئی، بعد ازاں وزیر خزانہ اسد عمر نے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کے حوالے سے فنانس بل پیش کرنے کی وجوہات سے آگاہ کیا۔

وزیر خزانہ اسد عمر نے مالی سال 19-2018 کے آئندہ 9 ماہ کے لیے پیش کردہ بجٹ ترامیم پیش کرتے ہوئے لگژری گاڑیوں، مہنگے موبائل فونز اور سگریٹ پر ڈیوٹی میں اضافہ کردیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انتخابی دھاندلی کے حوالے سے پیش کی گئی تحریک منظور کی گئی، بعد ازاں وزیر خزانہ اسد عمر نے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کے حوالے سے فنانس بل پیش کرنے کی وجوہات سے آگاہ کیا۔

وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف معیشت کو استحکام اور روزگار دینا ہے، برآمدات میں اضافہ کرنا ہے تاکہ قرضوں پر دار و مدار نہ کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس بجٹ بناتے وقت اس میں خسارے کا تخمینہ 4.1 فیصد تھا، 18-2017 کے اختتام پر یہ خسارہ حقیقت میں 6.6 فیصد تک پہنچ گیا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ 6.6 کا مقابلہ کریں تو 2013 میں جب مسلم لیگ(ن) کی حکومت آئی تو بجٹ خسارہ 8.2 فیصد تھا، جس میں 1.6 فیصد گردشی قرضوں کی ادائیگی تھی اور اگر اس میں سے گردشی قرضوں کی ادائیگی کو نکال دیا جائے تو 6.6 فیصد کا خسارہ تھا لیکن جب 2018 میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تب بھی یہ خسارہ اپنی مقررہ شرح پر ہی تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 6.6 فیصد خسارہ 22 کھرب 93 ارب روپے تھا اور یہ تمام خسارہ نہیں تھا بلکہ بجٹ سے باہر بجلی کے شعبے میں جو گزشتہ برس خسارہ ہوا وہ ساڑھے 4سو ارب جبکہ گیس کے شعبے میں 100 ارب روپے تک کا خسارہ ہوا۔

اسد عمر نے مزید کہا کہ ہم بالکل دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں اور صورتحال ایسی ہے کہ اگر فیصلے نہ کیے تو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند ماہ کے اندر ڈالر میں 20 روپے تک اضافہ ہوا، خدانخواستہ اگر یہ ذخائر مزید گرے تو روپے کی قدر مزید کم ہوسکتی ہے اور مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا واحد صوبہ تھا جس نے 34 ارب روپے کا سرپلس استعمال کیا جبکہ پنجاب نے سب سے زیادہ خسارہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دکھائے گئے خسارے اور حقیقت میں تقریباً 900 ارب روپے کا فرق ہے اور اگر اقدامات نہ لیں تو بجٹ کا کل خسارہ 2780 ارب روپے تک ہوجائے گا

ان کا کہنا تھا کہ مشکل حالات ہیں، ہمیں چادر دیکھ کر پیر پھیلانے ہوں گے جس میں 2 چیزیں ذہن میں رکھنی ہوں گی کہ غریب پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، چناچہ یہ بوجھ امیر لوگوں پر ڈالنا ہے، جس قدر ممکن ہوسکے ہم نے غریب کو بچانا ہے اور اس مسئلے سے کس طرح نکلا جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بہتری صرف آئی ایم ایف سے نہیں آسکتی، مشکلات جب دور ہوں گی جب ہماری صنعت مضبوط ہوگی، روزگار پیدا ہوں گے، زراعت ترقی کرے گی اور برآمدات بڑھے گی۔

بجٹ تقریر کے دوران انہوں نے بتایا کہ ہم نے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ یوریا کی ترسیل بڑھانے کے لیے 1 لاکھ ٹن کھاد درآمد کی جائے اور اس میں سبسڈی دی جائے، اس کے ساتھ مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے گیس بھی فراہم کی جائے گی۔

اس کے ساتھ اولین طور پر خیبر پختونخوا میں متعارف کروایا گیا صحت کارڈ کو فوری طور پر وفاقی علاقوں، اسلام آباد اور فاٹا کے حصوں میں فوری طور پر شروع کیا جائے گا اور 5 لاکھ 40 ہزار روپے فی خاندان صحت انشورنس دی جائے گی، اس کے ساتھ وزیر اعظم نے پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ اسے پنجاب کے بجٹ میں بھی شامل کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ مزدوروں کے گھروں کی تعمیر کے لیے فوری طور ساڑھے 4 ارب روپے جاری کیے جائیں گے اور اس کے بعد 10 ہزار گھروں پر کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

بجٹ تجاویز میں پنشنرز کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ای او بی آئی کے رجسٹرڈ میں 85 فیصد غریب ترین ہیں، جن کی کم سے کم ترین پینشن کی مد میں فوری طور پر 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا تاکہ انہیں کچھ ریلیف مل سکے۔

اسد عمر نے بتایا کہ گزشتہ حکومت نے بجٹ میں ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے جو اقدامات کیے تھے، ان میں کچھ کو برقرار رکھا گیا ہے اور سالانہ 12 لاکھ روپے تک کی آمدنی والے فرد پر ٹیکس کی چھوٹ کو برقرار رکھا گیا ہے۔

اسی طرح انہوں نے بتایا کہ 12 لاکھ سے 24 لاکھ روپے تک آمدنی والے افراد کو ٹیکس کی شرح میں جو چھوٹ دی گئی تھی، اسے برقرار رکھا ہے، تاہم باقی بچ جانے والے 70 ہزار افراد پر ٹیکس ریٹ میں اضافہ کر رہے ہیں لیکن ان کے ریٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوں گے

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button