قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے خود کو بدلنا ہوگا، ایسا نہیں کریں گے تو ترقی نہیں کر سکیں گے، عمران خان کا سول سرونٹس سے خطاب
۔'انہوں نے کہا کہ 'ہمیں قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے خود کو بدلنا ہوگا، سیاستدانوں، عوام اور بیوروکریسی نے خود کو بدلنا ہے، اگر خود کو تبدیل نہیں کریں گے تو ترقی نہیں کر سکیں گے اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔'

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمیں قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے خود کو بدلنا ہوگا اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو ترقی نہیں کر سکیں گے۔
اسلام آباد میں سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ‘کبھی پاکستان کو اتنے چیلنجز درپیش نہیں تھے جتنے آج ہیں، سول سرونٹس معاشی صورتحال کو بہتر جانتے ہیں، آج پاکستان کا قرضہ 30 ہزار ارب روپے کا ہے اور ہم قرضوں پر ہر روز 6 ارب روپے سود ادا کر رہے ہیں
عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترقی کے لئے سوچ بدلنا ہو گی، احتساب کے بغیر ملک نہیں چل سکتا، کرپشن کرنے والے لوگ پہلے اداروں کو تباہ کرتے ہیں، غلطیاں ہوتی ہیں، سب سے زیادہ مجھ سے غلطیاں ہوئی ہیں، غلطیوں کا دفاع کرنا غلط ہے۔ انہوں نے کہا سول سرونٹس کی جو بھی سیاسی وابستگی ہو آپ ملک کیلئے پرفارم کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری بیوروکریسی کوالٹی کی بیوروکریسی تھی، 60 کی دہائی میں ہماری بیوروکریسی ایشیا میں سب سے آگے تھی، دہشت گردی سے خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر تھا۔
۔’انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے لیے خود کو بدلنا ہوگا، سیاستدانوں، عوام اور بیوروکریسی نے خود کو بدلنا ہے، اگر خود کو تبدیل نہیں کریں گے تو ترقی نہیں کر سکیں گے اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘انگریزوں نے ہندوستان کے پیسوں سے شاہانہ طرز زندگی اپنایا تھا، جب سے ملک آزاد ہوا ہے حکمراں طبقے کا مائنڈ سیٹ ہی نہیں بدلا، ہمارے حکمراں طبقے نے غریب کے پیسے پر عیاشی کی گورے کی روایت کو اپنایا، جبکہ آزادی کے بعد حکومت اور عوام کو ایک ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں ہوئے۔’
عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘ ہم قرضے لے کر قوم کا مزید نقصان کر رہے ہیں، اورنج ٹرین اور میٹرو پر قرضے لے رکھے ہیں اور یہ منصوبے نقصان پہنچا رہے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان میں سارا مسئلہ ہی کرپشن کا ہے، پیسہ چوری کرنے کے لیے ادارے تباہ کر دیئے گئے، ملک میں احتساب کا ہونا ضروری ہے، مغرب میں آج شفافیت ہے اور مغرب میں لوگوں کو احتساب کا خوف ہوتا ہے۔